کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 87
انہوں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: تیری قوم نے تیر ی شکایت کی ہے اور کہتی ہے کہ تم نے ان سے دوسروں کا دیا مال بھی چھین لیا ہے۔‘‘ آپ نے جواب دیا: میں نے ان سے ان کی کوئی چیز نہیں لی ہے۔ بولیں : لیکن میں نے ان کو تمہارے بارے میں بری باتیں کرتے دیکھا ہے مجھے ڈرہے کہ وہ کسی سخت دن تم پر حملہ کردیں گے۔ آپ نے جواب دیا۔ اگر میں قیامت کے علاوہ کسی دن سے ڈروں تواللہ مجھے اس دن کے شر سے نہ بچائے۔ پھر آپ نے خدا م کو حکم دیا کہ وہ ایک دینار انگیٹھی اور چربی لے آئیں ۔ جب تینوں چیزیں آگئیں تو آپ نے انگیٹھی کی آگ کو پھونکیں مار مار کر خوب بھڑکایا، پھر دینار کو اس میں ڈالا، جب دینار تیز آگ میں تپ کر سرخ ہوگیا تو آپ نے ایک چمٹی سے جلتا دینار چربی پر ڈال دیا جس سے چربی سڑنے اور پگھلنے لگی اور اس کا ناگوار دھواں اور سرانڈ پورے کمرے میں پھیل گئی۔ آپ کی پھوپھو یہ سارا منظر دیکھتی رہیں ۔ پھر آپ نے اپنی پھوپھو سے کہا پھوپھو جان! کیا آپ کو ترس نہیں آتا کہ تیرے بھتیجے کا بھی ایسا ہی انجام ہو؟[1]
آپ کی پھوپھو اس منظر سے بے حد متاثر ہوئی اور آپ کی طرف یوں نظر بھر کردیکھنے لگی جیسے یہ چاہتی ہوکہ آپ یوں ہی بات کرتے رہیں اور یہ لوگ آپ کو بات کرتے ہوئے سنتے رہیں ۔ گویاکہ آپ اس عدالت وانصاف کی عملی اور فنی تصویر پیش کر رہے تھے جو اسلام لے کر آیاتھا تاکہ پوری اسلامی مملکت عدل وانصاف کی خیر سے متمتع ہو۔
آپ کہنے لگے: رب تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا ہے ناکہ عذاب بنا کر۔ پھر رب تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جوار رحمت میں بلالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے ایک نہر چھوڑ گئے جس میں سے پینے کا سب کو برابر حق تھا۔ آپ کے بعد جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ انھوں نے اس نہر کو اسی حال پر باقی رکھا۔ ان کے بعد سیّدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ انہوں اپنے سے پہلے کے دو حضرات کے عمل کو حرز جاں بنائے رکھا۔ پھر اس نہر سے یزید، مروان، عبدالملک اور اس کے بیٹے سلیمان اور ولید پیتے رہے۔ یہاں تک کہ معاملہ میری ذات تک آپہنچا۔ افسوس کہ اب وہ عظیم نہر خشک ہوچکی ہے اور اس نہر والوں نے اسے اپنی پہلی حالت پر واپس لانے کی کوشش نہیں کی۔
یہاں پر آکر آپ کی پھوپھو نے آپ کو بس کرنے کو کہا اور بولیں : ’’میں تم سے بات کرنے آئی تھی لیکن تمہاری یہ گفتگو سننے کے بعد اب میں تم سے کبھی کوئی بات نہ کروں گی۔ چنانچہ انہوں نے واپس جاکر بنوامیہ کو آپ کی گفتگو سنادی۔[2]
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لا بن الجوزی،ص: ۱۱۷
[2] الکامل فی التاریخ ۳/۲۷۰۔