کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 86
بنوامیہ کو نرم گفتگو کرنے پر مجبور ہونا: اگرچہ بنوامیہ نے مل کرسیّدنا عمر رحمہ اللہ کی شدید مخالفت کی لیکن آپ ان کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹے رہے جس پر وہ آپ کے ساتھ پرامن مذاکرات اور نرم گفتگو کرنے پر مجبور ہوگئے کہ شاید جو بات سختی سے حاصل نہ ہو سکی وہ نرمی سے حاصل ہوجائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دن آپ کے ساتھ گفتگو کی جس میں انہوں نے آپ کو قرابت داروں کے ساتھ نرمی وملاطفت کا رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ آپ نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’میرا سارا مال تم لوگوں کے لیے حاضر ہے اس میں جو چاہو کرو لیکن یہ (بیت المال کا ) مال عوام کا حق ہے اس میں ان کا حق بھی ایک عام آدمی جتنا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ اگر معاملات بدل جائیں اور سب زمین والوں کی رائے تم لوگوں کی رائے جیسی بن جائے تو یقینا ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔‘‘[1] ایک دن ہشام بن عبدالملک آپ سے ملنے آیا اورکہنے لگا:’’ اے امیر المومنین ! میں آپ کے پاس آپ کی قوم کا پیا مبر بن کرآیا ہوں ۔ میں آپ کو ان کے جی کی بات بتلانے آیا ہوں ، ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ آپ کے زیر فرمان ہے اس میں تو جوچاہے کیجئے اور جو آپ سے پہلوں نے کیا، اس کو اپنے حال پر رہنے دیجئے، وہ جانیں اور جوانہوں نے کیا، اس کا گناہ ثواب ان کے سر‘‘ آ پ نے برجستہ جواب دیا: تمہارا خیال ہے کہ اگرمیرے پاس دو فیصلے لائے جائیں ایک سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کااور ایک عبدالملک بن مروان کا تو میں کس فیصلے کو اختیار کروں گا؟ہشام نے کہا: پہلے فیصلے کو ’’(یعنی سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو )۔ اس پر آپ نے جواب دیا’’میں نے دیکھا کہ اللہ کی کتاب سب سے قدیم ہے پس جو میرے پاس اس مال کے بارے میں گفتگو کرنے آیا جو میرے زیر تصرف ہے اور جو مجھ سے پہلوں کے تصرف میں تھا تو میں اس آنے والے کو کتاب اللہ کا فیصلہ ماننے پر تیار کروں گا۔[2] بنوامیہ کا سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس آپ کی پھوپھو کو بھیجنا: جب بنوامیہ نے دیکھا کہ وہ کسی طور پر بھی آپ کو ڈرا کر یا نرما کر آپ کی سیاست سے نہیں ہٹا سکتے تو انہوں نے آپ کی پھوپھو فاطمہ بنت مروان کو بات کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا۔ آپ کی ان پھوپھوکی کسی بات کو کوئی خلیفہ نہ ٹالتا تھا اور نہ وہ خود بھی کسی خلیفہ سے ڈرتیں تھیں ۔ سب آپ کی بے حد تعظیم و توقیر کرتے تھے۔ خلافت سنبھالنے سے پہلے آپ کارویہ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی تعظیماً نہ تھا، چنانچہ جب وہ تشریف لائیں تو آپ نے حسب دستوراٹھ کر پھوپھو کا بے حد اکرام کیا اور تکیہ آگے کرکے بیٹھنے کو کہا۔ پھر
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی،ص:۱۱۴۔۱۱۵ [2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن الجوزی،ص:۱۱۸۔۱۱۹