کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 85
نے اپنے پہلے کے خلفاء کو بھلا دیا۔ اور ان کے طریقے سے ہٹ کر چلے، ان کے کاموں کا مرتبہ گھٹانے کے لیے اوران کے بعد ان کی اولادوں کو گالی دینے کے لیے ان کے کاموں کو مظالم کا نام دیا حالانکہ آپ کو ایسا نہ کرنا چاہیے تھا۔ پس آپ نے ان رشتوں کو توڑا جن کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا تھا اور آپ نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ناحق سلوک کیا۔ آپ نے قریش کے اموال، جائیدادوں اورمیراثوں کو لے کر بیت المال میں جمع کروادیا جو کھلم کھلا ظلم، ناانصافی اور زیادتی ہے، اے ابن عبدالعزیز! اللہ سے ڈر اور لوگوں سے چھینے مال انہیں لوٹا دے اور اپنی روش سے باز آ۔ اگرتم نے اپنے قرابت داروں کے ساتھ ظلم اور قطع رحمی کو ترک نہ کیا تو تمہیں اس منبر پر اطمینان سے بیٹھنا نصیب نہ ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرامت سے نوازا اور خاص کیا تم اپنی اس ولایت میں جس کو تم اپنے لیے ایک عظیم آزمائش سمجھتے ہو، اللہ سے بہت زیادہ دور ہوگئے ہو اور یہ واقعی ایک آزمائش ہے۔ پس تم اپنے بعض رجحانات اورانحرافات میں میانہ روی اختیار کرو۔[1]
یہ خط بتلاتا ہے کہ امویوں کو جناب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست سے بنیادی طورپر جو اختلافات تھے، وہ یہ ہیں :
٭ آپ نے پہلے خلفاء کے طرز کے خلاف طرز اپنایا اور ان پر اور ان کے اعمال پر حرف گیری کی۔
٭ گزشتہ خلفاء کی اولادوں کے ساتھ بد سلوکی کی۔
٭ آپ کا عمل حق کے ساتھ ملا ہوا نہیں ۔
٭ اہل بیت کے ساتھ قطعی رحمی آپ کی خلافت کے لیے خوش آئند بات نہ ہوگی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست خاندان کے مقام ومرتبہ کے لیے ایک کھلا چیلنج تھی جس نے ان کی قوت کے مراکز کو کمز ور کردیا تھا۔ بسااوقات اسی سیاست نے اموی خاندان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خلیفۂ قائم کے خلاف دھمکی آمیز موقف اختیار کریں ۔ جوآپ کے لیے بھی اور خود خلافت کے لے بھی خطرناک بات تھی۔[2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس جو اب کاایک ایک لفظ حق کے شعلوں کو اور بھڑکارہا تھا…، ہلاکت ہو تیرے لیے اور تیرے باپ کے لیے، روز قیامت اس سے مطالبہ کرنے والے اور اس کے مدمقابل لوگ کس قدر زیادہ ہوں گے۔ ذرا ٹھہرو! اگر اللہ نے مجھے لمبی زندگی دی اور اللہ نے حق کو حق و الوں تک پہنچادیا تو میں تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لیے فارغ ہوجائوں گا۔ اور میں روشن دلیل پر قائم ہوں گا۔ پس تم لوگ کب تک حق کو پیٹھ پیچھے پھینکتے رہوگے۔[3]
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۱۲۶۔۱۲۷
[2] عمربن عبدالعزیز،ص: ۱۹۵ از صالح العلی
[3] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص:۱۴۷۔۱۵۱ از ابن عبدالحکم