کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 84
گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے وسیع پیمانے پر بنی اُمیہ سے اموال واملاک کو واگزار کراکے ان کو بیت المال میں جمع کرایا جو کب سے بنوامیہ کے افراد کے قبضہ میں تھے اور ان میں روز بروزاضافہ ہوتا جار ہا تھا چونکہ وہ ایک حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس لیے کوئی ان سے پوچھنے والا نہ تھا لیکن آپ نے وہ اموال واملاک ان سے واپس لیے۔ تاکہ آپ عدل کو اس کے رستے پر جاری کرسکیں اور مسلمانوں کا مال ان تک لوٹ سکے۔ اور اس بات میں آپ نے کسی کو کسی پرترجیح نہ دی۔ اور نہ کسی جماعت کو دوسری جماعت پرفوقیت دی، بلکہ سب کو ایک ترازو میں تولا۔ غرض بنوامیہ کے طرح طرح کے وہ اموال جن کو وہ مختلف حیلوں بہانوں سے جمع کرتے تھے، آپ نے ان سے لے کر ان کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کیا۔ اس بابت ان لوگوں نے جن باتوں کا سہارا لیا ہوا تھا، ان سب باتوں کو کالعدم قرار دیا۔ چنانچہ ظلم سے ہتھیائے اموال انعامات کے نام پر ملنے والے اموال، ہدایا، مراعات، تخصیصات، مستثنیات، زمینیں جائیدادیں غرض سب چیزوں کو بحق سرکار ضبط کر کے ان کو بیت المالک میں جمع کراددیا۔ ایک اندازے کے مطابق نقدیاں اور رقوم قوم کے مال کے نصف کے برابر تھیں ۔[1] پھر چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ بنوامیہ کے پاس اب صرف وہ رقوم اور جائیدادیں باقی رہ گئی تھیں جو ان کا شرعی اور طبعی حق تھا۔ پھر بنوامیہ کا سیّدنا عمربن عبدالعزیز کی سیاست کے خلاف چیخ اٹھنا بھی تو ایک طبعی بات تھی۔ پھر ان لوگوں نے آپ کی سیات کی زبردست اور سنگین مخالفت کی۔ اور اس ساری مخالفت کا جواب آپ صرف یہ کہہ کر دیتے تھے کہ دیکھو! اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ رب کی دھرتی پر ظلم کا کوئی مطالبہ باقی نہ رکھوں مگر یہ کہ میں وہ حق حق والے کو پہنچا دوں ۔ اور اگر مجھے یہ کام اس شرط پر بھی کرنا پڑے کہ جب بھی میں کسی کا حق اسے لوٹا ئوں اسکے بدلے میں میرے بدن کاایک ٹکڑا کاٹ کر الگ کر دیا جائے اور میں اس کی درد محسوس کروں اور اس کو پھر دوبارہ جوڑدیا جائے اور پھر کاٹ دیا جائے اسی طرح ہوتا رہے حتی کہ میں سب کے حقوق ان تک پہنچادوں ، تو مجھے یہ منظور رہے۔[2] لیکن امت کے حقوق کے مقابلے میں بنوامیہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس محتاط اور پختہ رویے سے ذرا بھی مایوس نہ تھے۔ ان کے دل میں ایک دن بھی اس بات کا خیال نہ آیا تھا کہ وہ اپنی گزشتہ روش سے تائب ہو کر یہ سب مال ودولت خود اپنے ہاتھوں سے بیت المال میں دے دیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک دن سب کو جمع کیا۔ پھران لوگوں نے ولید کے ایک بڑے اور دانشمند بیٹے سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ اس بابت عمر کو ایک خط لکھے۔ چنانچہ اس نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر کیا ’’آپ
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن الجوزی،ص:۱۱۵ [2] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۱۴۷۔۱۵۱