کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 83
پھر آپ نے اپنی یہ سیاست دوبارہ اس وقت واضح کی جب عبدالملک نے آپ کی خدمت میں آکر اس بات کا مطالبہ کیا کہ آپ امویوں کے ہاتھوں سے ناجائز مال چھڑوانے میں جلدی کیجیے۔‘‘
تو آپ نے فرمایا: ’’اے میرے بیٹے ! تیری قوم نے اس مسئلہ کو بے حد پیچیدہ بنا دیا ہے اور اس میں بے پناہ گنجلک پیدا کردی ہے۔ چنانچہ جب میں ان کے ہاتھوں سے ناجائز مال چھڑوانے کے لیے ان کی چالوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو مجھے اس بات کا اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے دھوکا دے کر مار نہ ڈالیں جس کے نتیجہ میں بے پناہ خونریزی ہو۔ اللہ کی قسم! مجھے دنیا کا زائل ہونا اس بات سے زیادہ آسان ہے کہ میری وجہ سے خون کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے۔ کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہوکہ تیرے باپ پر اس دنیا میں وہ دن بھی آئے۔ (یاجودن بھی آئے مگر) اس میں وہ ایک بدعت کو مٹائے اور ایک سنت کو زندہ کر ے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور وہ سب بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘[1]
پھر آپ نے اپنی اس سیاست کو مزید اس وقت واضح کیا جب آپ کے بیٹے عبدالملک نے آپ سے یہ کہا کہ آپ جو چاہتے ہیں اس کے کرنے میں رکاوٹ ہے؟اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! مجھے اس بات تک کی ذرا پرواہ نہیں کہ مجھے اور آپ کو ہانڈیوں میں ڈال کر زندہ ابال دیا جائے۔ تو آپ نے فرمایا: مجھے تم سے اسی بات کی توقع تھی۔ عبدالملک بولا جی ہاں ! اللہ کی قسم ‘‘ تب آپ نے فرمایا: سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے میری اولاد میں اسے پیدا فرمایا جو میرے دین کے امرمیں میرا مدد گار ہے۔ اگر میں لوگوں سے وہ کہہ دوں اور ان پر یہ الزام لگادوں جو تم کہتے ہو تو مجھے ڈرہے کہ وہ ان باتوں کا انکار کردیں گے اور جب وہ انکار کر دیں گے تو سوائے تلوار اٹھانے کے اور کوئی رستہ باقی نہ رہے گا، اور اس خیر میں کوئی خیر نہیں جو تلوار کے بل پر حاصل ہو۔ اے میرے بیٹے! میں لوگوں کو سخت مشق کر کے قابو میں لارہا ہوں ۔ اگر میری زندگی لمبی ہوئی تو میں رب سے امید کرتا ہوں کہ وہ میری چاہت پوری کرے گا، اور اگر موت نے مجھے آلیا تو میری تمنا کو رب جانتا ہے۔[2]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز نے اس حکیمانہ اسلوب اور طریقہ سے اپنی سیاست کوجاری اور نافذ کیا۔ پھر اس سیاست کی عملی تطبیق کے لیے یہ بھاری قدم اٹھایا کہ سب سے پہلے آپ نے ان اموال کو واپس کیا جن کے ساتھ کسی کے حقوق وابستہ ہونے کا ادنیٰ سا بھی شائبہ تھا۔ پھر دوسرے اموی اہل بیت کو بلوا کران سے بھی اسی بات مطالبہ کیا جس کی قدرے تفصیل گزشتہ میں گزر چکی ہے۔[3]آپ کی خلافت کے ابتدائی ایام اس بات کی
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن الجوزی،ص: ۲۶۰۔۲۶۳
[2] ایضًا،ص:۲۶۲۔۲۶۳۔
[3] عمربن عبدالعزیز وسیاسۃ فی رد المظالم،ص: ۲۱۵