کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 82
حضرات خلفائے راشدین کے مبارک ادوار میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے محض رعایا کے سامنے اپنی شان وشوکت اور ٹھاٹھ باٹھ دکھلانے کے لیے بے پناہ مال خرچ کیا۔ انہی شاہانہ خرچیوں میں ایک وہ سرکاری گاڑی تھی جس میں گھوڑے، خچر اور ٹٹو تین قسم کے جانور جوتے جاتے تھے، پھر ان میں سے ہر ایک جانور کا الگ الگ سائز ہوتا تھا۔ ان شاہی اللوں تللوں میں وہ شامیانے، خیمے، حجرے، فرش فروش، غالیچے اور تکئے بھی ہوتے تھے، جونئے خلیفہ کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔ پھر آپ کے سامنے وہ قیمتی نفیس اور دیدہ زیب لباس پوشاکیں ، عطر دان اور تیل رکھے گئے جن کا آپ کو یہ کہہ کر مالک بنا دیا گیا کہ راہی ملک عدم ہونے والے خلیفہ نے ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ اس لیے اب یہ سب آپ کا ہے۔ کیونکہ آپ نئے خلیفہ ہیں اور یہ سب آپ کا حق ہے۔ بے شک یہ سب وہ فضول خرچیاں تھیں جن کے جواز کی نہ تو کوئی وجہ تھی اور نہ مسلمانوں کا بیت المال ہی ان شاہانہ خرچیوں کا متحمل ہوسکتا تھا۔ بلکہ بیت المال کاہر ہر درہم اس بات کاشدید محتاج تھا کہ اسے مسلمانوں کے مفادمیں کسی صحیح ترین جگہ پر خرچ کیا جائے۔ چنانچہ جیسے ہی یہ شاہی سامان زیب وزینت اور اسباب آرائش وزیبائش پیش کیا گیا آپ نے اپنے خادم مزاحم کو حکم دیا کہ یہ سب کچھ بلاتا خیر بیچ کر اس کی قیمت کو بیت المال میں جمع کر ادیا جائے۔[1] بنوامیہ کے چھینے ہوئے اموال کی بابت آپ کی سیاست واضح تھی، آپ نے لوگوں کے اموال ناحق غصب کرنے پر سخت پابندی عائد کر دی اورگزشتہ چھینے ہوئے اموال بھی واپس کروا دیے۔ بالخصوص اموی خاندان پراس بابت سخت داروگیر کی اور خلافت سنبھالتے ہی واضح خطوط پر چلتے ہوئے مظلوموں کے حقوق ان تک پہنچائے۔ چنانچہ جب آپ سلیمان کو دفن کرکے لوٹے تو اموی خاندان کے افراد کا ایک وفد آپ سے ملنے آیا اور انہوں نے آپ سے ان باتوں کا مطالبہ کیا جن کا انہیں گزشتہ خلفاء نے عادی بنا رکھا تھا۔ آپ کے بیٹے عبدالملک نے اس وفد کو لوٹانا چاہا لیکن آپ نے ایسا کرنے سے منع کردیا تاکہ آپ اپنے بیٹے سمیت سب پر یہ بات واضح کردیں کہ امور خلافت میں آپ کا سیاسی رویہ کیا ہوگا۔ چنانچہ آپ نے بیٹے سے پوچھا’’بیٹے تم انہیں میری طرف سے جاکر کیا کہو گے؟ عبدالملک بولا: میں انہیں جاکر کہوں گا کہ اباجان تمہیں سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں : {قُلْ اِِنِّی اَخَافُ اِِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ} (الزمر:۱۳) ’’کہہ دے بے شک میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں ۔‘‘
[1] عمر بن عبدالعزیزوسیاستہ فی رد المظالم،ص:۲۱۳