کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 81
یتیم سے کچھ خریدنے کا مجاز نہیں ۔ پھر آپ یمن میں موجود اپنی جبل ورس کی جائیداد کی طرف متوجہ ہوے اور وہاں کے لوگوں کے شدید احتیاج دیکھتے ہوئے اسے بیت المال میں جمع کروادیا۔آپ آخرت کو دنیا کی عارضی زندگی پر ترجیح دیتے تھے۔ اسی طرح آپ نے مزاحم کوحکم دیا کہ وہ بحرین سے آنے والے سالانہ مال کو بھی بیت المال میں جمع کروا دے۔[1] یوں آپ نے رعایا کے سامنے اپنی ذات سے ایک نمونہ پیش کیا کہ جس مال میں ظلم کا ادنی سابھی شائبہ تھا، اسے واپس کردیا۔ یا اس کے خالص اپنا مال ہونے میں ذرا سا بھی شک ہوا وہ بیت المال میں جمع کروا دیا۔ غرض آپ نے زہد اختیار کرتے ہوئے اور اس بات پرایمان رکھتے ہوئے کہ مظلوم کوا س کا حق لوٹا دینا تقوی ہے، حق والوں کو ان کا حق لوٹا دیا۔ حتی کہ شک سے بچنے کے لیے خود اپنے حق سے بھی دست بردار ہوگئے۔ ان اُمور سے فارغ ہونے کے بعد اپنی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک کی طرف متوجہ ہوئے جس کے پاس ہیرے اور جواہرات تھے۔ آپ نے اہلیہ سے کہا: یہ مال بیت المال واپس کر دو یا پھر مجھ سے جدائی اختیار کرلو، کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں کہ ایک ہی گھر میں تیرے اور میرے ساتھ یہ مال بھی ہو۔[2] پھرآپ نے اہلیہ کو اپنی ناگواری کی وجہ بھی بیان کی، وہ یہ کہ تم اس زیور کا اور جو تیرے باپ نے اس کے بارے میں کیا اس کا حال جانتی ہو۔ کیا تم ایسا کرسکتی ہوکہ میں اس زیور کو ایک تابوت میں بند کر کے بیت المال کے آخری کونے میں رکھ دوں اگر تو میں بیت المال کا مال خرچ کرتے کرتے اس تک پہنچ گیا تو اس کو بھی خرچ کر ڈالوں گا اور اگر میرے مر نے تک اس مال کی باری نہ آئی تومیری عمرکی قسم! میں یہ زیور تمہیں لوٹا دوں گا۔ بیوی نے کہا: آپ اس مال میں جوچاہے کیجئے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ اس زیور کو ایک تابوت میں بند کر کے بیت المال کے آخری کو نے میں رکھوا دیا۔ پھر وہی ہوا کہ آپ کے انتقال تک اس زیور کو خرچ کرنے کی نوبت نہ آئی۔ موصوفہ کے بھائی یزید بن عبدالملک نے خلافت سنبھالتے ہی وہ ہار بہن کو واپس کرنا چاہا مگر انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ایک دفعہ چھوڑ کر اسے دوبارہ نہ لوں گی۔ اس پر یزید نے وہ زیور اپنی بیویوں اور بہوئوں میں تقسیم کر دیا۔[3] اب ذرا بنی امیہ کے ظلماً چھینے ہوئے اموال کی داستان بھی سن لیجئے! اپنے اموال کے اس مومنانہ بندوبست کے بعد آپ بنی امیہ کے خاندان کے دوسرے افراد، اپنے پھوپھی زاد بھائیوں اور ماں شریک بھائیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ سلیمان کی تدفین کے فوراً بعدآپ نے ایسے مناظر دیکھے جن سے آپ کے ہوش اڑگئے وہ یہ کہ آپ کے اموی چچازاد بھائیوں نے وہ شاہانہ ٹھاٹھ دکھلائے جن کا دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور
[1] عمر بن عبدالعزیزوسیاستہ فی رد المظالم،ص:۲۱۲ [2] ایضًا ، ص: ۲۱۲ [3] ایضًا ،ص:۵۲۔۵۳