کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 80
سب میں سے سویداء کی جائیداد روک لی تھی۔ اس کے بارے میں آپ نے یہ وضاحت بیان کی کہ میں نے مسلمانوں کے اموال کی ہر چیز لوٹا دی ہے سوائے سویداء کے چشمے کے کیونکہ اس میں کسی کے مال کا ایک کوڑے برابر بھی حصہ نہیں ۔ یہ چشمہ میں نے اپنی تنخواہ میں سے خریدا ہے اور میری یہ رقم دوسرے مسلمانوں کی رقوم کے ساتھ جمع کی جاتی تھی۔ اس کا غلہ دو سو دینار کا اٹھتا تھا۔[1] مدینہ کے شمال کی بستی فدک سالانہ تقریبا دس ہزار دینار کا غلہ دیتی تھی۔ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے اس بستی کے بارے میں پوچھا اور تحقیق کی۔ آپ کو اس غلہ کے بارے میں بتلایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب صدیق اکبر، جناب عمرفاروق اور جناب عثمان رضی اللہ عنہم اس کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ ان معلومات کی روشنی میں آپ نے ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو یہ خط لکھ بھیجا : ’’امابعد! میں نے فدک کے بارے میں غور وفکر اور تحقیق کی، میں نے دیکھا کہ فدک کا غلہ لینا میرے لیے مناسب نہیں اور میں نے دیکھا کہ میں اس کے غلے کو انہی کاموں میں صرف کروں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم صرف کیا کرتے تھے اور ان حضرات کے بعد جو نئی باتیں پیدا ہوئیں (یعنی بعدکے خلفاء وامراء نے اس بابت جو زیادتیاں کیں ) ان کو چھوڑدوں ۔ پس جب آپ کے پاس میرا یہ خط پہنچے۔ تو اس کو قبضہ میں لے لیجئے گا اور فدک پر ایسے آدمی کو مقرر کیجئے گا جو اس میں حق اور سلامتی والا رویہ اختیار کریں ۔‘‘[2] ’’ابن کتیبہ‘‘ کا قصہ بھی سن لیجئے ! یہ خیبر کا ایک قلعہ تھا خلیفہ بننے کے بعد آپ نے مدینہ کے والی ابو بکر بن محمدبن عمرو بن حزم کو خط لکھاکہ ’’کتیبہ کے بار ے میں میرے لیے تحقیق کرو کہ آیا کتیبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خیبر کے خمس میں سے تھا یا آپ کے لیے خاص تھا؟ ابوبکر کہتے ہیں : ’’میں نے اس بابت عمرہ بنت عبدالرحمن سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنی ابی الحقیق کے ساتھ صلح فرمائی تھی توآپ نے نطاۃ اور شق (کے قلعوں ) کے پانچ جز بنائے۔ انہیں میں سے ایک حصہ کتیبہ تھا سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے یہ سن کر کتیبہ کو اسی حال کی طرف واپس کر دیا جو اس کا دوررسالت میں تھا۔‘‘[3] اسی طرح آپ نے ایک مصری کی حلوان کی جائیداد یہ جاننے کے فوراً بعد واپس کردی کہ یہ زمین آپ کے والد عبدالعزیز نے اس مصری سے جبراً لی تھی حتی کہ آپ نے وہ گھربھی جو آپ کے والد نے اپنے زیر پرورش ایک یتیم ربیع بن خارجہ سے خرید ا تھا،اسے یہ جاننے کے بعد واپس کر دیا کہ یتیم کے امور کا نگران اسی
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکم ، ص: ۴۰ [2] طبقات ابن سعد: ۵/۳۸۹ [3] عمر بن عبدالعزیزوسیاستہ فی رد المظالم،ص:۲۰۹