کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 78
آپ نے اپنی مملوکہ جائیداد اور مال و دولت کو کئی طریقوں سے چھوڑا۔چنانچہ بعض کوبیچ دیا۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے اپنے مکان میں غور کیا جوآپ نے ایک غلام سے خریدا تھا۔ پھراپنے لباس فاخرہ اور قیمتی خوشبوئوں کو دیکھا اور ان سب کو بیچ ڈالا۔ یہ سب کچھ ۲۳ ہزار دینار میں فروخت ہوا۔ اور یہ خطیررقم آپ نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردی۔[1]
اسی طرح بعض چیزوں سے یوں جان چھڑائی کہ ان کو ان کے اصلی مالکوں کے حوالے کردیا۔ دراصل یہ وہ جائیدادیں تھیں جو آپ کی قوم نے آپ کو ہدیہ میں دی تھیں ۔ابن جوزی نے اسماعیل بن ابی حکیم سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ایک دفعہ ہم سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے تھے کچھ دیر بعد لوگ متفرق ہوگئے اور آپ گھر میں قیلولہ کے لیے تشریف لے گئے۔ اتنے میں ایک ندا کرنے والے نے نداکی۔ ’’الصلوۃ جامعہ‘‘ ہم اس بات کے خوف سے بے حد گھبرا اٹھے کہ شاید کوئی اختلاف پیش آگیا ہو یا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔ اتنے میں ایک باندی بولی کہ امیرالمومنین نے مزاحم کو بلایا ہے اور کہا ہے کہ’’اے مزاحم !قوم نے ہمیں متعدد تحفے دیے ہیں - اللہ کی قسم! نہ تو انہیں دینے چاہییں تھے اور نہ ہمیں لینے چاہییں تھے۔ بے شک یہ تحفے مجھے ملے ہیں جن کا محاسب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں ۔‘‘
مزاحم نے عرض کیا : اے امیرالمومنین ! کیا آپ جانتے ہیں کی آپ کی اولاد کتنی ہے؟ وہ اتنے اتنے ہیں ۔ مزاحم کہتے ہیں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ آپ روتے جاتے اوریہ کہتے جاتے کہ میں ان سب کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر مزاحم آپ کے پاس سے اٹھ کر عبدالملک کے پاس گیا۔ حاضرہونے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر مزاحم اندر داخل ہوا۔ عبدالملک قیلولہ کے لیے لیٹا ہوا تھا۔ عبدالملک نے اس وقت آنے کی وجہ دریافت کی کہ کیا کوئی واقعہ پیش آیا ہے؟ تو مزاحم نے کہا ’’جی ہاں ! ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو آپ پر اور آپ کے باپ شریک بھائیوں پر بے حد سخت ہے۔ عبدالملک نے پوچھا وہ کیا ؟ مزاحم بولا۔’ مجھے امیر المومنین نے بلوایا تھا۔ پھرسارا ماجرا گوش گزار کردیا۔۔ عبدالملک نے کہا پھر تم نے عمر کو کیا کہا؟ مزاحم نے بتلادیا کہ میں نے ان سے یہ پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی اولاد کتنی ہے؟ وہ اتنے اتنے ہیں ۔ عبدالملک کہنے لگا پھر عمر نے کیا جواب دیا؟ مزاحم نے جواب دیا کہ وہ اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ میں ان سب کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں ۔ اس پر عبدالملک نے کہا’’اے مزاحم!تم برے وزیر ہو۔۔ پھر تیزی سے اٹھ کر اپنے والد عمر کے دروازے پرگیا۔ اور اندر جانے کی اجازت مانگی دربان نے کہا: تم لوگو ں کو ان پرترس نہیں آتا۔ دن رات میں اسی وقت میں آرام کرتے ہیں ۔ اس پر عبدالملک بولا’’تیری ماں نہ رہے میرے لیے اجازت مانگو۔ یہ ساری گفتگو عمر نے بھی سن لی۔ اور پوچھا، کون
[1] طبقات ابن سعد: ۵/۳۴۵