کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 76
غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچائو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح با خبر ہے۔‘‘
عدل کی دو صورتیں ہیں :
(۱) سلبی صورت جیسے ظلم سے روکنا اور مظلوم کو ظالم کے دست ستم کیش سے بچانا ، یعنی ظالم کو لوگوں کے جان ومال اور عزت وآبرو سے متعلقہ حقوق کی پامالی سے روکنا، ان پر سے ظلم و اعتداء کے تکلیف دہ اثرات کو ہٹانا، ان کے حقوق انہیں دلوانا اور حقوق پامال کر نے والے کو قرار واقعی سزا دینا جس کا وہ مستحق ہو۔[1]
(۲) عدل کی دوسری صورت ایجابی ہے۔ اس کا زیادہ ترتعلق مملکت کے ساتھ ہے کہ مملکت رعایا کو ان کے حقوق دلوائے، ان کی معاشی زندگی کی کفالت کرے اور جملہ آزادیوں کی ضامن بنے۔ یہاں تک کہ ان میں کوئی لاچار نکما، غفلت کا شکار کمزور، تنگدستی کا مارا فقیر اورکسی بااثر کے ڈراوے دھمکاوے کا مارا خوف زدہ باقی نہ رہے۔ اسلام میں یہ سب امور ایک حاکم کے ذمے ہوتے ہیں ۔[2] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس نہایت اہم اور نازک ترین بنیاد کو بڑے اہتمام کے ساتھ قائم کیا۔ آپ کے نزدیک خلافت اور مسئولیت یہ لوگوں کے حقوق قائم کرنے، انکی بیعت کی شرائط پوری کرنے اور ان کے شرعی مفادات کو پورا کرنے کا نام تھا۔ پس امت کے نزدیک خلیفہ (امت کا) خادم ہوتا ہے جس کے ذمہ بیعت کی شرائط کے مطابق ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔[3]
آپ چاہتے کہ امام عادل کی صفات اور ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کیا جائے تاکہ آپ خود بھی اس ستودہ صفت خصلت کے ساتھ آراستہ ہوسکیں ۔ چنانچہ آپ نے اس بابت حسن بصری رحمہ اللہ کو خط لکھ کر دریافت کیا تو انہوں نے یہ جواب لکھ بھیجا ’’اے امیر المومنین! امام عادل اس باپ کی طرح ہوتا ہے جو اپنی چھوٹی اولاد پر بے حد شفیق ہوتا ہے اور ان کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتا ہے اورجب وہ بڑے ہوجاتے ہیں توان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتا ہے اپنی زندگی میں ان کے لیے وصیت کرتا ہے اور مرنے پیچھے ان کے لیے مال چھوڑ جاتا ہے۔
اے امیر المومنین! خلیفہ عادل اس ماں کی طرح ہوتا ہے جو اپنی اولاد پربے حد مہربان نیک اور ان کی
[1] عمربن عبدالعزیز خامس الخلفاء الراشدین،ص: ۲۲۲ از عبدالستار شیخ
[2] عمربن عبدالعزیز خامس الخلفاء الراشدین،ص: ۲۲۲
[3] عمربن عبدالعزیز خامس الخلفاء الراشدین،ص: ۲۲۳