کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 75
حیوہ رحمہ اللہ جیسے علماء سے مشاورت کرتے اور ان کی رائے قبول کرتے۔آپ ان سے کہتے : میرے کندھوں پر بار خلافت کو ڈال دیا گیا ہے مجھے ا س بابت مشورہ دو۔[1] اسی طرح آپ ارباب دانش وبینش اور اصحاب عقل وفہم سے بھی مشاورت کرتے تھے۔[2]
خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے آپ نے اپنے خواص اور ندماء کی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ آپ نے علماء وصلحاء کو اپنے قریب کیا جبکہ مفادپرستوں ، دنیاداروں اور ہوا وہوس کے غلاموں کو اپنے سے دور کیا۔ پھر آپ نے اپنے خواص وندماء کی چھانٹی اور اصلاح کرنے پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ آپ خود انہیں اس بات کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ آپ کو مستقیم رکھا کریں ا ور آپکو سیدھی راہ دکھلاتے رہا کریں ۔ چنانچہ آپ نے ایک دفعہ عمر بن مہاجر سے یہ کہا کہ جب تم مجھے حق سے ہٹتے دیکھو تو میرا گر بیان پکڑ کر مجھے جھنجھوڑنا اور مجھ سے پوچھنا ’’اے عمر ! یہ کیا کرنے چلے ہو؟‘‘[3]
آپ کے اس طرز کا آپ کی تجدیدی سیاست کی درستی و کامیابی پر گہرا اثر مرتب ہوا۔ چنانچہ آپ کے خواص آپ کی کمر مضبوط رکھتے اور آپ کی رائے کوحق وصواب سے ہٹنے نہ دیتے۔ آپ کی کامیابی کی ایک وجہ آپ کا علماء وصلحاء کو اپنے قریب کرنا تھا۔ اور آپ انہیں انشراح قلب کے ساتھ ملنے اپنے معاملات اور امور خلافت کے تحمل میں انہیں شریک کرتے جس کے نتیجہ میں اسلام اور مسلمانوں کو بے پناہ خیر ملی۔[4]
عدل وانصاف:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ } (النحل:۹۰)
’’بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
اوریہ بات قواعد شرعیہ کی روسے معلوم ہے کہ رب تعالیٰ کا کسی بات کا امر کرنا یہ اس کے وجوب کو متقضی ہوتا ہے… اور فرمایا:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا } (النساء:۱۳۵)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جائو، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی
[1] سیرۃ ومناقب عمربن عبدالعزیز،ص:۱۶
[2] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۲۸۵
[3] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص:۱۷۵۔۱۷۷
[4] ایضًا،ص: ۱۷۸