کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 74
یقینا جس شخص نے جزوی ولایت وامارت کے وقت شوارئی نظام کو اساس بنایا تھا، لازمی تھاکہ کلی امارت و ولایت اور مسئولیت کے ملنے پر جو سب مسلمانوں کے امر کی ولایت تھی وہ شورائیت کو اپنی اساس بناتا۔ آپ نے اپنی خلافت وامارت کے پہلے دن ہی شورائیت کے نظام کو خلافت کی بنیاد بنانے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے خطبہ میں یہ کہا ’’لوگو! مجھے بار خلافت سونپ دیا گیا حالانکہ نہ تو میر ی رائے لی گئی، نہ میری تمنا تھی اور نہ مسلمانوں سے ہی اس بابت کوئی مشورہ کیا گیا۔ اس لیے (شوریٰ کے بغیر طے کی جانے والی) اس خلافت کی بیعت سے تم لوگوں کو میں آزاد کرتاہوں ۔ اب جس کو چاہوامیر بنالو، لیکن لوگوں نے آپ کے خلیفہ ہونے پر اپنی رضا کا اعلان کر دیا۔‘‘ [1] یوں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بنی امیہ کے اکثر خلفاء کی وراثتی خلافت کی روش کو شورائی خلافت کی طرف منتقل کردیا، پھر آپ نے فقط حاضرین کی رائے لینے پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ آپ نے دوسرے بلاد وامصار کے مسلمانوں کے مشورہ کی بھی اہمیت کو بیان کیا، چنانچہ آپ نے بیعت خلافت ہوجانے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں یہ کہا : اگرتو تمہارے قرب وجوار کے بلاد وامصار کے مسلمانوں نے بھی تمہاری طرح اطاعت قبول کر لی تو میں تمہارا والی ہوں گا وگرنہ نہیں ‘‘ اور یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے۔[2] پھر آپ نے سب علاقوں میں خطوط روانہ کیے۔ ان سب لوگوں نے بیعت کر نے کا اعلان کیا۔ چنانچہ آپ نے یزیدبن مہلب کو بھی خط لکھا اور بتلایا کہ آپ خلافت میں راغب نہیں اور بیعت کا مطالبہ کیا۔ لیکن یزید نے لوگوں کو آپ کی بیعت کر نے پر تیار کیا۔[3] یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نے فقط اپنے آس پاس کے لوگوں سے مشورہ لینے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ آپ نے اس معاملہ کادائرہ تمام بلاد اسلامیہ تک پھیلایا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کر سکتے ہیں : الف: دراصل آپ نے خلیفہ کے انتخاب میں اصول شرعیہ کی موافقت نہ کرنے کی بابت خلفاء بنوامیہ کے چہرے کا نقاب اتار پھینک مارا۔ ب: آپ نے خاص اپنے متعلقہ امر ’’ امر خلافت‘‘ میں بھی شوریٰ کے نظام سے کام لیا۔ ج: اورجس نے خلافت کی تولیت جیسے اہم ترین مسئلہ میں شوریٰ کی تطبیق سے کام لیا وہ دوسرے معاملات میں بدرجہ اولیٰ شوریٰ کے نظام سے کام لے گا۔ سیّدنا عمربن عبدالعزیز بے شمار کاموں میں سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ اوررجاء بن
[1] سیرۃ ومناقب عمربن عبدالعزیز،ص: ۶۵ [2] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۵۷ [3] تاریخ الطبری نقلا عن النموذج الاداری المستخلص من اداراۃ عمر،ص:۲۸۵