کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 73
قاضی بنایا اوربعض نے علم کی نشرواشاعت او رلوگوں کی تعلیم وتربیت کی بہ نسبت اپنا زیادہ وقت جہاد فی سبیل اللہ اور دعوت الی اللہ میں صرف کیا۔ یہ تھا سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا لوگوں کی تعلیم وتربیت اور انہیں امور دینیہ کی تفصیل سکھلانے کی بابت نمایاں اورممتاز منہج جس کے اپنے سیاسی نتائج اور آثار واثرات تھے۔ وہ یہ کہ رعایا کے افراد واشخاص میں صحیح دینی سمجھ اور فقاہت پیداکرنے اور پھیلانے کا ابنائے امت کی عقلوں کو ان فضول افکار و نظریات سے بچانے میں اہم ترین حصہ اور اثر ہے جو سیاسی استحکام اور امن عامہ کے لیے شدید خطرہ ہوتے ہیں جیسے خوارج کے افکار۔[1]
مجلس شوریٰ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَo} (الشوری: ۳۸)
’’اور وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نما ز قائم کی اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
{فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْلَہُمْ وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ} (آل عمران: ۱۵۹)
’’سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
آپ نے اپنی خلافت میں شوریٰ کا نظام قائم کیا۔ شوریٰ کے بارے میں آپ کا قول ہے: ’’مشورہ اور مناظرہ رحمت کا دروازہ اور برکت کی کنجی ہے۔ ان دونوں باتوں کے ہوتے ہوئے رائے نہیں بھٹکتی اور نہ ان کے ہوتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے۔‘‘[2] ولید بن عبدالملک کے دور خلافت میں مدینہ منورہ کی ولایت سنبھالنے کے بعد بھی آپ نے سب سے پہلی یہی کیا تا کہ شوریٰ کا نظام قائم کرکے اس کو اپنی ولایت کی اساس وبنیاد قرار دیا۔ چنانچہ آپ نے مدینہ کے کبار علماء و فقہاء کو بلا کر ان کی ایک دائمی مجلس شوریٰ تشکیل دی۔ [3]
[1] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص:۱۸۰۔
[2] ادب الدنیا والدین للماوردی، ص: ۱۸۹
[3] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمربن عبدالعزیز،ص : ۲۸۳