کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 72
ساتھ رہنے کی زیادہ تمنا نہیں ۔[1]
اوریہ بھی کہا: ’’اگر میرے بدن کے ٹکڑے کر دیئے جائیں اور اس کے بدلے اللہ میرے ہاتھوں پر بدعت کو فنا کرے اور ہرسنت کو زندہ کرے تویہ سودا اللہ کے ہاں مہنگا نہیں ۔‘‘
ایک موقع پر یہ کہا’’اللہ کی قسم ! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں سنت کو استوار اور قائم کروں یاحق پر چلوں تو مجھے اتنا عرصہ بھی جینے کی تمنا نہ ہوتی جتنے عرصہ میں بکری کے تھن کو دودھ دوھتے وقت ایک دفعہ دبا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس لیے آپ نے خلافت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف بھر پور توجہ دی۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کی تعلیم وتربیت اور تفہیم دین کے لیے بلاد و امصار میں مختلف علماء بھیجے اور اقالیم کے عمال کو حکم لکھ بھیجا کہ وہ علماء کو اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ علم کی نشرواشاعت کریں ۔ چنانچہ آپ نے اپنے ایک خط میں اپنے عمال کو لکھا کہ ’’اپنے لشکروں میں موجود اہل علم وفقہ کو حکم دو کہ رب تعالیٰ نے تمہیں جس علم سے نوازا ہے اسے پھیلائیں اور اپنی مجالس میں اس کو بیان کریں ۔‘‘[2]
ایک خط میں یہ لکھا:
’’امابعد! میں اہل علم کو اس بات کا حکم دیتا ہوں کہ وہ مساجد میں علم کو پھیلائیں کہ سنت کو مردہ کر دیا گیا ہے۔‘‘[3]
آپ نے اپنے عاملوں کویہ بھی لکھ بھیجا کہ وہ علماء کے وظیفے جاری کریں تاکہ وہ فراغت قلبی کے ساتھ علوم دینیہ کی نشرواشاعت میں مصروف ہوجائیں ۔[4]
آپ نے متعدد علماء کو لوگوں کی تعلیم وتربیت پر مامور کیا۔ چنانچہ آپ نے یزید بن ابی مالک دمشقی اور حارث بن یمجد اشعری کو لوگوں کی تعلیم کے لیے دیہاتوں میں بھیجا۔[5]
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بنی نمیر کی تعلیم اور انہیں قرا ء ت سکھانے کے لیے یزید بن ابی مالک کو بھیجا اور اہل مصر کو سنن کی تعلیم دینے کے لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع کو ان کے پاس روانہ کیا۔ [6] جبکہ اہل افریقہ میں دین کی فقاہت پیدا کرنے کے لیے دس فقہاء کو افریقہ روانہ کیا جن کے بارے میں آگے چل کر گفتگو کی جائے گی۔ پھرآپ نے ان علماء کے ذمہ صرف تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ہی عائد نہ کی تھی بلکہ آپ نے ان میں سے بعض کو ولایت بھی سونپی۔ بعض کو
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۶۰ لابن عبدالحکم
[2] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص: ۷۳ لابن عبدالحکم
[3] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن الجوزی، ص: ۷۶
[4] البدایۃ والنھایۃ نقلاعن اثرالعلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص:۱۷۹
[5] مختصر تاریخ دمشق: ۶/۱۷۵
[6] سیراعلام النبلاء: ۵/۹۳۸