کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 71
ح: آپ نے اس بات کا پختہ عہد کرلیا تھا کہ کسی کو کوئی ناجائز چیزنہ دیں گے اور نہ کسی کا جائز حق روکیں گے بلکہ حق دار کو اس کا حق دے کر رہیں گے۔ اور یہ کہ اگر آپ رب کے فرماں بردار ہیں تو لوگ آپ کی اطاعت کریں وگرنہ نہیں ۔
یہ ہیں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست کے واضح خطوط جن کو آپ نے اہل حل وعقد سے مسجد میں اپنی پہلی ملاقات کے وقت بیعت ہوجانے کے بعد ان کے سامنے پیش کیا تھا۔آپ نے واضح کردیا کہ آپ کی خلافت کتاب وسنت کے خطوط پراستوار ہوگی۔ آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ آپ اپنے کسی عامل کو اس کے بعد اپنے اوپر حجت کا کوئی راستہ نہ دیں ۔ پھر جو باتیں آپ نے اپنے اس پہلے خطبہ میں اجمال واختصار کے ساتھ بیان کی تھیں ان کو قدرے تفصیل و وضاحت کے ساتھ اپنے ان خطوط میں بیان کیا جوآپ نے وقتا فوقتاً اپنے عمال کو روانہ کیے تھے۔ یہ خطوط دو قسم کے تھے:
(۱ ) آپ نے اپنے عمال کو ان باتوں کی طرف متوجہ کیاجن کا شخصی اعتبار سے التزام کرنا ان کے ذمے تھا۔ جبکہ رعایا کے اعتبار سے بھی ان کا لحاظ رکھنا ان پرواجب تھا۔ ان شاء اللہ اس کو ہم آگے چل کر زیر بحث لے آئیں گے۔
(۲ ) آپ نے اپنے عمال کو ایسے خطوط بھی لکھے جن میں ان کی سیاست کی حدود کا بیان تھا اور یہ کہ مسلم و غیر مسلم رعایا کے ساتھ جو بلاد اسلامیہ میں سکونت پذیر تھی ان کے معاملات کی نوعیت کیا ہو۔ ان شاء اللہ آگے چل کر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا اس باب میں موقف اصول دین کے کسی متبحر فقیہ جیساتھا۔[1] اس پر گفتگو آپ کے اعمال کے ضمن میں آگے چل کر آجائے گی۔
کتاب وسنت پر عمل کی شدید خواہش:
آپ کے منہج سیاست کا سب سے ممتاز پہلو یہ تھا کہ آپ کتاب وسنت پر عمل کرنے کی، رعایا میں دین پھیلانے کی اور ان میں دین کی تفہیم اور سنت کی معرفت پیدا کرنے کی شدید تمنا رکھتے تھے۔ اس بابت آپ کی بنیاد آپ کا خلافت کی ذمہ داری کو سمجھنا تھا۔ اور وہ دین کی حفاظت کرنا اور دین کے ذریعے دنیا کی سیاست چلانا ہے۔[2] آپ کے نزدیک خلافت کی اہم ترین ذمہ داری رعایا کو ان کے دین کے مبادیات سمجھانا اور انہیں ان پر عمل کرنے پر ابھارنا تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: بے شک اسلام کی کچھ حدود وشرائع اور سنن ہیں جس نے ان پر عمل کیا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا اور جس نے ان پر عمل نہیں کیا اس نے اپنا ایمان مکمل نہیں کیا ، اگر میں زندہ رہا تو تمھیں ایمان کی یہ حدود و شرائع سکھلائوں گا بھی اور تمہیں ان پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دوں گا۔ اور اگر میں زندہ نہ رہا تو مجھے تم لوگوں کے
[1] عمر بن عبدالعزیز سیاسۃ فی رد المظالم: ۱۰۶
[2] الاحکام السلطانیۃ والولایات الدینیۃ،ص: ۵