کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 70
الف: کتاب وسنت کا التزام اوریہ کہ آپ مسائل شرع میں کسی اختلاف کو سننانہیں چاہتے۔ دین یہ ایسی اساس ہے جو حاکم اور منفذ ہے اور یہ کہ شریعت اس بات کے اعتبار سے واضح ہے کہ جورب نے حلال کیا ہے وہ حلال ہے اور جو رب نے حرام کیا ہے وہ حرام ہے اور یہ کہ آپ بدعت اور نئی نئی آراء کو پھینک مارتے ہیں ۔ ب: آپ نے رعایا میں سے اس شخص کے لیے کام کرنے کی حدود بیان کر دیں جوآپ کے ساتھ مل کر کام کرناچاہتا تھا۔ چنانچہ آپ نے بیان کیا کہ جو ہمارے ساتھ آملنا چاہے اور مل کر کام کرنا چاہے وہ پانچ باتوں کے لیے آملے: ٭ وہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس اس شخص کی حاجت لے کر آئے جو خلیفہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یعنی آپ نے اپنے مقربین کو اپنے اور ان لوگوں کے درمیان نقطہء اتصال ٹھہرایا جو آپ تک نہیں پہنچ سکتے تاکہ آپ لوگوں کی ضروریات سے باخبر ہوسکیں اور اس میں غور کرسکیں ۔ ٭ وہ شخص جہاں تک ہوسکے خیر کی طرف رہنمائی کر ے۔ یعنی ان لوگوں کا آپ کے ساتھ تعلق خیر پر ابھارنے کی بنیادوں پرہو اور وہ خیر پر خلیفہ کے معین و مددگار بنیں ۔ دوسرے ہر شر کو خلیفہ سے دور رکھیں ۔ ٭ آپ نے اپنے مقربین پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ امت کی خیر وصلاح کی طرف آپ کی رہنمائی کریں اور آپ کو بہتری کا رستہ دکھائیں ۔ ٭ آپ نے اپنے مقربین کو کسی کی غیبت کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا۔ ٭ اور یہ کہ جس بات میں عامۃ الناس کا فائدہ نہ ہو اس بابت امور مملکت میں کوئی دخل اندازی نہ کرے آپ خوب جانتے تھے کہ حکام کے مقربین اور خواص کا خود حاکم کی ذات پر اور رعایا پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ بلکہ خود نظام حکومت پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں آپ اس سے بھی خوب واقف تھے۔ چنانچہ آپ نے بجائے اس کے کہ آخر کار آپ عوام وخواص کو خود سے دور کریں ، اس بات کوترجیح دی کہ انہیں متنبہ کریں تاکہ وہ آپ کو دائرہ شریعت میں رہ کر امور خلافت کو سرانجام دینے دیں ۔ کیونکہ آپ نے عوام وخواص کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ آپ کی خیر کی طرف رہنمائی کرتے رہیں ، اس پر معاو نت کرتے رہیں اور محتاجوں کی حاجات کو آپ تک پہنچاتے رہیں ۔[1] ج: آپ نے لوگوں کو دنیا میں برائیاں کرنے کے انجام بد سے ڈرایااور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے باطنوں کی اصلاح کریں اور موت سے ڈریں اور اس سے عبرت ونصیحت پکڑیں ۔
[1] عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ فی ردّ المظالم ،ص:۱۰۵