کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 69
’’ امابعد! بے شک تمہارے پیغمبر کے بعد کوئی نیا پیغمبر نہیں ، اورنہ ان پر اتاری جانے والی کتاب کے بعد کوئی کتاب ہے، خبردار سن لو! جو چیزرب نے حلال کر دی ہے وہ قیامت تک حلال ہے۔ سن لو! میں فیصلے کرنے والا نہیں ۔ میں تو صرف نافذ کرنے والا ہوں اور میں کسی نئے طریقے کو ایجاد کرنے والا نہیں میں تو صرف تابع ہوں ۔
خبردار! رب کی نافر مانی میں کسی کی اطاعت نہیں ۔ سن لو میں تم سے بہتر نہیں ، بلکہ میں تمہی میں سے ایک آدمی ہوں ، البتہ اللہ نے مجھ پر تم سب سے زیادہ بھاری ذمہ داری ڈالی ہے، اے لوگو! جو ہمارا ساتھی بنے وہ پانچ باتوں میں ہمارا ساتھی بنے وگرنہ ہمارے قریب نہ آئے، وہ ہمارے پاس اس شخص کی حاجت لے کرآئے جو اپنی حاجت پیش نہیں کر سکتا اور وہ اپنی ہمت کوشش کے ساتھ ہماری معاونت کرے اور ہمیں اس خیر کی طرف رستہ دکھائے جس پر ہم چلیں اور اس تک جاپہنچیں ، وہ ہمارے پاس رعایا کی غیبتیں نہ کرے، لا یعنی کاموں کے ساتھ ہمارے آڑے نہ آئے۔ میں تم لوگوں کو رب کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں بے شک رب تعالیٰ کا تقوی ہر شے کا بدل ہے جبکہ اللہ کے تقوی کا بدل کوئی چیز نہیں ۔ اپنی آخرت کے لیے عمل کرو۔ بے شک جو اپنی آخرت کے لیے عمل کرتا ہے اللہ اس کی دنیا میں اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے، اپنے باطنوں کی اصلاح کرو اللہ تمہارے ظاہر کی بھی اصلاح کردے گا۔ موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرو اور مرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح تیاری کر لو بے شک موت لذتوں کو توڑنے والی ہے… بیشک اس امت کا اپنے ر ب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں اور نہ اس کے پیغمبر کے بارے میں اور اس کی کتاب کے بارے میں … اختلاف اگر ہے تودرہم ودینار میں ہے۔
اللہ کی قسم! میں کسی کو ناجائز نہ دوں گا اور نہ کسی کا جائز حق روکوں گا۔ پھر آپ نے باآواز بلند سب کو سنا کرکہا: ’’لوگو! جو اللہ کی اطاعت کرے اس کی اطاعت واجب ہے اور جو اللہ کی نافرمانی کر ے اس کی کوئی اطاعت نہیں ، پس جب تک میں اللہ کا فرمانبردار رہوں میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ کا نافرمان بن جائوں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں ۔ اگر تمہارے گرد ونواح کے بلاد و امصار تمہاری طرح اطاعت کرتے ہیں تو میں تمہارا والی ہوں اور اگروہ انتقام لیں اور عداوت کریں تو میں تمہارا والی نہیں ۔‘‘[1] یہ خطبہ دے کر آپ منبر سے اترآئے۔
یوں بروز جمعہ ۲۰صفر المظفر ۹۹ ھ میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلیفہ بنالیا گیا۔[2] اس خطبہ سے ہمارے سامنے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وہ سیاست کھل کر سامنے آجاتی ہے جو آپ نے امر خلافت میں اختیار کی تھی جو یہ ہے:
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم، ص: ۳۵، ۳۶
[2] البدایۃ والنھایۃ:۱۲/۶۵۷