کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 68
رجاء کہتے ہیں : ’’میں نے عمر کا باز وپکڑ کراسے منبر پر بٹھایا جبکہ وہ اناللہ پڑھے جارہے تھے کہ یہ کیا ہوگیا۔ ادھر ہشام بھی اس بات پر انااللہ پڑھے جارہے تھا کہ خلافت اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔ جب ہشام سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس پہنچا تو بولا: اس وقت پر انااللہ جب عبدالملک کی اولاد کی بجائے امر خلافت تمہیں مل گیا۔ اس پر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا: ’’اس لمحہ پر اناللہ جب یہ امر مجھے سونپا گیا کیونکہ میں امر خلافت کو پسند نہیں کرتا۔‘‘[1]
سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ رجاء کے اس کردار پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’رجاء نے وہ عظیم کارنامہ اور قابل تحسین کام کرد کھا یا جس کو اسلام کبھی نہ بھلا پائے گا۔ میں بادشاہوں کے مقربین اور ندماء وخواص میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے بادشاہ کے قرب سے وہ نفع اٹھایا ہو جو رجاء نے سلیمان کے قرب سے اٹھایا اور اس نے موقع سے وہ فائدہ اٹھایا ہو جورجاء نے اٹھایا اور اس نے اسلام کی وہ خدمت کر دکھائی ہو جیسی رجاء نے کر دکھائی۔‘‘[2]
اللہ رجاء پر رحم کرے اس نے بادشاہوں کے پاس نشست برخاست رکھنے والے علماء کے لیے ایک روشن مثال قائم کی، ایک کردار کی بنیاد رکھی اور اس منہج کی داغ بیل ڈالی کہ کیونکر اسلام کو سر بلند کیا جاتا ہے۔ امر اء اور خلفاء کو اللہ کیسے یاد دلایا جاتا ہے اور دین الٰہی کی خدمت کے موقعے کیسے ڈھونڈے جاتے ہیں ؟
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا پہلا خطبہ اور اس کی روشنی میں حکومت چلانے کی بابت آپ کا منہج:
غرض بیعت ہو گئی، پھر آپ منبر پر چڑھے۔ خلافت سنبھالنے کے بعد یہ امت مسلمہ سے پہلی ملاقات تھی۔ چنانچہ انہیں مخاطب کر کے فرمایا:
’’اے لوگو! مجھ سے پوچھے بغیر یہ ذمہ داری میرے کندھوں پرڈال دی گئی ہے نہ تو مجھے اس کی طلب تھی اور نہ اس بابت مسلمانوں سے مشورہ ہی لیا گیا۔ میں نے تم لوگوں کی وہ بیعت جو تم نے میرے ساتھ کی تھی ختم کی۔ تم اپنے میں سے جس کو چاہو ، چن لو۔‘‘
اس پر سب لوگوں نے بیک آواز پکار کرکہا: ’’اے امیر المومنین! ہم نے آپ کو چن لیا اور ہم آپ پر راضی ہیں ۔ پس آپ خیر وبرکت کے ساتھ ہمارے امر کے والی بنئے‘‘ یہیں سے آپ سمجھ گئے کہ بار خلافت اٹھائے بغیر چارہ نہیں ۔ پھر آپ نے امت مسلمہ کی سیاست کے بارے میں اپنے منہج وطریق کو واضح کرتے ہوئے کہا: [3]
[1] تاریخ الطبری: ۷/۴۴۵۔ طبقات ابن سعد: ۵/۳۳۵،۳۳۸
[2] رجال الفکر والدعوۃ الندوی: ۱/۴۰
[3] عمر بن عبدالعزیز و سیاسۃ فی ردّ المظالم، ص: ۱۰۲ از ماجدہ فیصل۔