کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 66
گا۔ وہ کسی کو اپنے اوپر والی نہ رہنے دیں گے سوائے ایک صورت کے کہ میں اس کے بعد ان میں سے کسی کو والی مقرر کردوں ۔ ان دنوں یزید بن عبدالملک موسم حج کی بنا پر غیر موجود تھا۔ سلیمان کہنے لگا، میں یزید کوعمر کے بعد خلیفہ نامزد کرتاہوں کہ ایک تو اس سے خود یزید طیش میں نہ آئے گا دوسرے باقی کی اولاد بھی عمر پر راضی رہے گی۔ میں نے کہا: جناب کی رائے بجا ہے۔ چنانچہ سلیمان نے پھر یہ عہدنامہ لکھا: ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم یہ پروانہ (عہد نامہ) ہے امیر المومنین سلیمان بن عبدالملک کی طرف سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نام کہ میں نے اسے اپنے بعد خلیفہ نامزد کردیا جبکہ ان کے بعدیزیدبن عبدالملک خلیفہ ہوگا۔ پس تم لوگ اس کی بات سنواور مانو اور اللہ سے ڈرو اور اختلاف نہ کرو کہ دشمن تم میں طمع نہ کر نے لگیں ۔‘‘ سلیمان نے پروانہ لکھ کر پولیس افسر کعب بن حامد کو بلوا کرکہا کہ اہل بیت کو جمع کرو۔ کعب نے پیغام بھیج کر سب کو جمع کر دیا۔ ان سب کے جمع ہوجانے کے بعد سلیمان نے رجاء سے کہا: یہ میری تحریر ان کے پاس لے جائو اور جا کر بتلاؤ کہ یہ میرا عہدنامہ ہے اور جسے میں نے اس عہدنامہ میں خلیفہ نامزد کیا ہے اس کی بیعت کرو۔ چنانچہ رجاء ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا تم سب ایسا ہی کرو گے؟ و ہ بولے ہم اس کی اطاعت کریں گے اور اس کا حکم ما نیں گے اور ساتھ ہی سلیمان کے پاس جا کر سلام کرنے کی بھی اجازت مانگی۔ پھر سلیمان کے پاس جا کر اسے سلام کیا۔ سلیمان نے انہیں کہا: یہ میرا عہدنامہ ہے جو رجاء کے ہاتھوں میں ہے۔ سلیمان نے اشارہ سے بتلایا اور وہ سب دیکھنے لگے۔ پس میں نے اس میں جس کا نام ذکر کیا ہے ا س کی سنو، مانو اور بیعت کرو۔‘‘ رجاء کہتے ہیں : ان سب نے عہد میں مذکورشخص کی بیعت کی۔ ابھی تک عہد نامہ سربمہر تھا۔ یہ کہہ کر سلیمان رجاء کے ہاتھ سے وہ عہد نامہ لے کر چلاگیا۔ اور گھر والے متفرق ہوگئے۔ اتنے میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ آنکلے اوررجاء سے کہنے لگے: ’ ’ اے ابو المقدام! سلیمان میرا بے حد احترام کرتے تھے اور ان کو مجھ سے محبت تھی۔ وہ مجھ پر بڑے مہربان اور شفیق بھی تھے۔ مجھے ڈرہے کہ شاید انہوں نے خلافت کا یہ بار میرے کندھوں پرنہ ڈال دیا ہو، میں آپ کو اللہ کا اور اپنی حرمت ومودت کاواسطہ دیتا ہوں کہ اگر کوئی بات ایسی ہے تو مجھ بتلا دیجئے تاکہ میں اس سے معذرت کرلوں قبل اس سے کہ وہ وقت آجاے جب میں وہ کچھ نہ کر پائوں جواب کر سکتا ہوں ۔‘‘ اس پررجاء بولے: ’’اللہ کی قسم ! میں تمہیں ایک لفظ کی خبر بھی نہ دوں گا۔‘‘ یہ سن کر عمر ناراض ہو کر چلے گئے۔ پھر میری ملاقات ہشام بن عبدالملک سے ہوگئی۔ کہنے لگا: ’’اے رجاء! بے شک میرے اور تیرے درمیان قدیم دوستانہ اور محبت واحترام کا سلوک چلا آتا ہے۔ اور میں تمہارا شکر گزار بھی ہوں ۔ذرامجھے بتلائو