کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 65
لوٹانایا ان کوبیت المال میں جمع کروانا واجب تھا۔ ۶…خلافت سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سلیمان بن عبدالملک مرض الوفات میں مبتلا تھا۔ اسی دوران رجاء بن حیوہ کندی نے اسے یہ نصیحت کی کہ اگر جاتے جاتے امت اور اپنی آخرت کا بھلا کرنا چاہتے ہو توعمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اپنے بعد خلیفہ بناجائو۔ یقینا یہ بات سلیمان کی نیکیوں میں سے ہے کہ اس نے رجاء کی یہ بات ماننے میں ذر اتردّد سے کام نہ لیا۔ اور اس بات کی وصیت کر گیا جس میں شیطان کو اپنا حصہ نہ مل سکا۔[1] ابن سیرین کہتے ہیں : ’’اللہ سلیمان پر رحم کرے جس نے اپنی خلافت کا آغاز نماز کے احیاء سے کیا اور اس کو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے استخلاف پر ختم کیا۔‘‘ سلیمان نے ۹۹ھ میں وفات پائی۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔ سلیمان کی انگوٹھی پر یہ الفاظ کندہ تھے: ’’میں اللہ پر خالص ایمان لاتا ہوں ۔‘‘[2] سلیمان کے اپنے بعد سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلیفہ نامزد کرجانے کا قصہ متعدد روایات میں آیا ہے۔ طبقات ابن سعد میں سہل بن ابی سہل سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے رجا ء بن حیوہ کو سنا وہ کہتے ہیں کہ ’’جمعہ کا دن تھا۔ سلیمان نے سبز ریشم کا لباس زیب تن کیا، پھر آئینہ دیکھ کر ہم کلام ہو ا کہ ’’اللہ کی قسم! میں نوجوان بادشاہ ہوں ‘‘ اور جمعہ کے لیے نکلا۔ لوگوں کو جمعہ پڑھایا۔ابھی لوٹا نہ تھا کہ بیمار پڑگیا اور تیز بخار میں مبتلا ہوگیا۔ جب بیماری بڑھ گئی تو اپنے بیٹے ایوب کے لیے ولی عہد ہونے کا پروانہ لکھ دیا۔ حالانکہ ابھی تک وہ بالغ بھی نہ ہوا تھا۔ میں نے کہا: امیر المومنین! یہ کیا کررہے ہیں ؟ اگرکوئی خلیفہ اپنی قبر کا بھلا کرنا چاہتا ہے تولازم ہے کہ اپنے بعد کسی نیک آدمی کو خلیفہ بناجائے۔ سلیمان نے یہ سن کہا کہ ’’میں نے ابھی لکھا ہے۔ میں اللہ سے اس بابت استخارہ کروں گا۔ ابھی میں نے اس بات کا پختہ عہد نہیں کیا۔‘‘ پھر ایک یادودن بعد سلیمان نے وہ عہد نامہ پھاڑ ڈالا اور مجھے بلا کر پوچھا…بھلا داؤد بن سلیمان کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کی رائے سر آنکھوں پر لیکن میں ذرا ان کے بارے میں غور کرلوں ۔ پھر سلیمان نے کہا: اچھا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ بڑے عالم فاضل اور نیک مسلمان ہیں ۔ سلیمان بولا: بات تو تمہاری ٹھیک ہے ، لیکن اللہ کی قسم! اگر میں نے عبدالملک کی اولاد میں سے کسی کو والی نہ بنایا تو فتنہ برپا ہوجائے
[1] عصر الولتین الامویۃ والعباسیۃ، ص : ۳۷ از مؤلف موصوف [2] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۱۱۔ ۱۱۲