کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 64
خلیفہ سے بات نہ کر لوں تم نے مدینے روانہ نہیں ہونا۔ قاصد ٹھہر گیا۔ اتنے میں سلیمان بیمار پڑگیا۔ آپ نے قاصد سے کہا: ’’امیر المومنین بیمار ہوگئے ہیں اس لیے تم ابھی روانہ نہ ہونا۔ سلیمان اسی بیماری میں وفات پاگیا اور امر خلافت آپ کے سپرد کردیاگیا۔ چنانچہ آپ نے خلافت سنبھالتے ہی وہ خط منگواکر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جس میں زیدبن حسن کی سزا کا حکم مذکور تھا۔ [1]غرض سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سلیمان بن عبدالملک کے پورے دور خلافت میں اس کے ساتھ رہے اور اسے قدم قدم پر خیر کی نصیحت کرتے اور اس کی ذمہ داریوں میں اس کا ہاتھ بٹاتے رہے۔[2] دکتو ر یوسف العش کے نزدیک سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست اور اس کے اصول ومبادی کا آغاز سلیمان کے دور خلافت میں ہوتا ہے۔ جی ہاں ! سلیمان کبھی اپنی سیاست میں زیادتی سے بھی کام لیتا تھا۔ پھر وہ ایسی تدابیر بھی اختیار کرتا تھا کہ عمر اس کو روک نہ سکیں ، لیکن اس کے باوجود جناب سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلافت سلیمان کے دور میں ایک راجح قوت کے مالک تھے اور آپ کی سیاست غیر متغیر تھی۔ جیسے آپ مدینہ میں تھے ویسے ہی دمشق میں بھی تھے۔ البتہ دمشق میں آپ نے مدینہ سے زیادہ خیر کے کام کیے اور سیاست میں بھر پور کر دار ادا کیا۔ بہرحال اہم ترین بات یہ ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست کا نقطہ ارتکاز ظلم وجور اور جبر واستبداد کا خاتمہ تھا۔ [3] ہم نے دیکھا کہ لوگوں کو حقوق دلوانے اور ظلم سے باز رکھنے کی بابت امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے آپ نہایت تدریج سے کام لیتے تھے اورجب آپ مسند خلافت پر رونق افروز ہو گئے توعدل قائم کرنے اور ظلم سے جنگ کرنے کی بابت آپ کی کاوشوں میں اور تیزی آگئی۔ کیونکہ اب آپ کے اختیارات کا دائرہ بے حد وسیع ہوگیا تھا۔ آپ نے اپنے چچا عبدالملک بن مروان کواس کے دور اقتدار میں اس کے بے حد ظالم وجابر ہونے کے باوجود نصیحت کی اور اسے آخرت یاد دلائی۔ جبکہ اپنے چچازاد ولید کے دور میں بھی کسی قسم کی بے ہمتی اور کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا اور اپنی پیش رفت جاری رکھی۔ جبکہ سلیمان کے دور میں حسب امکان جوبن پڑاکیا۔ اپنے دور خلافت میں اپنے اختیارات کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ دوسرے ہم یہ نہیں کہتے کہ شخصی سطح پر جو کچھ ہوا وہ انقلاب تھا۔ انقلاب تویہ ہے کہ زندگی کے سب امور میں حکومت کو شریعت کی خدمت میں استعمال کی جائے۔ چاہے وہ احکام شرعیہ حکمران خاندان کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ۔ جن کو کسی حکومت میں مراعات واختیارات بھی حاصل ہوں ۔ جن مراعات کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ امت کے وہ حقوق سمجھتے تھے جن کا اہل حق کو
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکم، ص:۱۰۴ [2] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص: ۱۷۳ [3] الدولۃ الامویۃ،ص: ۲۵۴ از یوسف العش