کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 63
میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا ایک دوسرے کو کھائے جارہی ہے: ایک دفعہ امیر المومنین سلیمان بن عبدالملک سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ ایک فوجی چھاؤنی کا دورہ کرنے گئے۔ وہاں نہایت عمدہ گھوڑے، اونٹ، خچر اور باربرداری کے جانور اورحشم وخدم تھے۔ سلیمان نے پوچھا: ’’اے عمر! ان چیزوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟‘‘ آپ نے کہا: یہ دنیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں یہ ایک دوسرے کو کھائے جارہی ہے اورآپ اس سب کے ذمہ دار ہیں ، آپ سے ان کے احوال کی بابت پوچھ گچھ ہوگی۔ جب سلیمان چھائونی کے قریب ہوا تواس نے ایک کوا دیکھا جس کی چونچ میں سلیمان کے خیمہ کے دسترخوان کا ایک لقمہ تھا۔وہ اسے منہ میں لے کر اڑ رہاتھا اور کائیں کائیں کیے جارہا تھا۔ اس پر سلیمان نے آپ سے پوچھا: ’’اے عمر! آپ اس کو ے کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ انھوں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ سلیمان بولے: تمہارا کیا خیال ہے یہ کیا کہہ رہا ہے؟ تب آپ نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ کوا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ لقمہ اس نے لیا کہاں سے ہے اور اسے لے کر کہاں جارہا ہے؟ سلیمان نے کہا: کیا بات ہے تمہاری، تم نے کیسی عجیب بات کی ہے۔ اس پر آپ نے کہا: ’’مجھ سے بھی زیادہ حیرت اس آدمی پر ہے جو اللہ کو جانتے ہوئے بھی اس کی نافرمانی کرتاہے اورجو شیطان کو پہچانتے ہوئے بھی اس کی اطاعت کرتا ہے۔‘‘[1] یہ قیامت کے دن تیرے حریف ہوں گے: ایک دفعہ حج کے موقع پر جب سلیمان اور سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ عرفات کے میدان میں کھڑے تھے اور سلیمان لوگوں کی کثرت دیکھ کر خوش ہو رہے تھے توآپ نے سلیمان سے کہا امیر المومنین! آج یہ آپ کی رعایا ہے۔ کل آپ ان کے جوابدہ ہوں گے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’کل قیامت کے دن یہ سب آپ کے حریف اور مدمقابل ہوں گے۔‘‘ یہ سن کر سلیمان رونے لگا اور کہا:’’ میں اللہ سے مدد کا خواستگار ہوں ۔ ‘‘[2] زید بن حسن بن علی اورسلیمان عبدالملک: جب ولید نے سلیمان کو خلافت سے معزول کرنے کا ارادہ کیا تھا تو زید بن حسن نے ولید کے ڈرسے اس مسئلہ میں اس کی موافقت کی تھی اور مدینہ سے اپنی موافقت لکھ بھیجی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد سلیمان کو زیدبن حسن بن علی کالکھا وہ خط ہاتھ آگیا۔ چنانچہ اس نے والی مدینہ کو حکم بھیجا کہ وہ زیدسے اس خط کے بارے میں دریافت کرے۔ اگرتو وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے یہ خط لکھا تھا تو گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو اور اگرانکارکرتا ہے تو اس سے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بٹھلا کر قسم لو۔ زید نے صاف صاف اقرار کر لیا۔ والی مدینہ نے ا س کی خبر لکھ بھیجی تو سلیمان نے قاصدکے ہاتھ پیغام بھیجا کہ زید کو سو کوڑے مارے جائیں اور ننگے پیر گلی کوچوں میں پھرایا جائے۔ آپ نے یہ تدبیر کی کہ قاصد کو روک لیا اور کہا کہ جب تک میں زید کے بارے میں
[1] البدایۃ والنھایۃ : ۱۲/۶۸۵ [2] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۸۵