کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 62
حد تک بڑھا دیتے ہیں کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے فیصلوں کو شریعت نافذہ اور غیر متبدل حکم الٰہی باور کرنے لگتے ہیں اور یہ بھی غور نہیں کرتے کہ ان کے فیصلے شرعاً درست اور شریعت خداوندی کے موافق بھی ہیں یا نہیں ۔ یہیں سے سلیمان بن عبدالملک کے کردار کی عظمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جب اس کے بیٹے ایوب نے سیّدنا عمربن عبدالعزیز کو کلمہ حق کہنے پربرا بھلا کہاتو سلیمان نے اسے بے حدڈانٹا۔ یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ سلیمان کس قدر تیزی کے ساتھ حق بات کو ظاہرہوتے ہی اس طرف آجاتا تھا۔ [1] خرچ کرنے کی بابت سلیمان بن عبدالملک پر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا انکار: ایک دفعہ سلیمان نے مدینہ منورہ آکر بے پناہ مال خرچ کیا پھر آپ سے پوچھا کہ ’’اے ابو حفص! ہمارے اس فعل کی بابت کیا کہتے ہو؟ آپ نے یہ حکیمانہ جواب دیاکہ ’’میر ے نزدیک آپ نے مالداروں کی ثروت میں اور فقراء کی تنگدستی میں اور اضافہ کر دیا ہے۔‘‘[2] غور کیجئے کہ سیّدنا عمر نے کس حکیمانہ تدبر کے ساتھ سلیمان کے فعل کی اصلاح کی۔دراصل سلیمان انفاق کے بارے میں احکام شرعیہ سے مطلق نابلدتھا۔ اور وہ یہ گمان کیے بیٹھا تھا کہ اس نے رعایا پر بے پناہ مال خرچ کر کے بڑا نیکی کا کام کیا ہے مگرآپ نے اسے سمجھا یا کہ اس نے غیر مستحقین پر خرچ کرکے اور حقداروں کو محروم رکھ کر غلط کیا۔[3] دراصل آپ نے خیر کے کاموں میں خرچ کرنے اور مستحقین پر صرف کرنے کے درمیان نہایت عمدہ تفریق کرکے سلیمان کے سامنے پیش کی تھی۔ سیّدنا عمر رحمہ اللہ کا سلیمان کو ترغیب دینا کہ مظلوموں کا ناحق چھینا ہوامال انہیں لوٹا دیا جائے : ایک دفعہ سلیمان اپنے دیہاتوں کی طرف نکل گیا۔ اتنے میں بادل چھاگئے اور چمکنے اور گرجنے لگے۔ سلیمان اور ان کے ساتھی بجلی کی گرج چمک سے ڈرنے لگے۔اس پر آپ نے کہا: اب تو اس آواز کے ساتھ نعمت ہے (یعنی بارش ہوگی) اس وقت کیا کرو گے جب اس آواز کے ساتھ عذاب ہوگا؟ سلیمان بولا: یہ سو درہم لے کر صدقہ کردو۔ آپ نے کہا: ’’امیر المومنین ! کیا اس سے بھی زیادہ خیر کا کام نہ کر لیں ؟ سلیمان نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ آپ نے کہا: کچھ لوگ ہیں جن کے اموال ناحق چھین لیے گئے ہیں ۔ وہ اپنی فریاد لے کر آپ تک نہیں پہنچ سکے۔ (لوٹا نا ہے توان کا مال لوٹائیے) یہ سن کر سلیمان بیٹھ گیا اور لوگوں کے حقوق انہیں لوٹانے لگا۔ [4] یہ واقعہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فقاہت کو بتلاتا ہے کہ آپ خرچ کرنے کی بابت اولویات کا فہم رکھتے تھے۔ چنانچہ آپؒ کے نزدیک مظلوموں کا حق انہیں لوٹانا یہ صدقہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۵/۳۰، ۳۱ [2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۱۳۱ از ابن عبدالحکم [3] التاریخ الاسلامی: ۱۵/۲۹ [4] اثرالعلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ، ص: ۱۷۰