کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 61
حجاج کے والیوں کو معزول کرنا اسی طرح مکہ کے والی خالدقسری، مدینہ کے والی عثمان بن حیان کو معزول کرنا۔[1] نماز کو اپنے وقت پرادا کرنے کا حکم دینا، ابن عسا کرنے سعید بن عبدالعزیز سے روایت کیا ہے کہ ولید ظہر اور عصر کی نمازوں کومؤخر کر کے اد اکرتا تھا۔ پھر جب سلیمان خلیفہ بنا تو اس نے لوگو ں کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی رائے لکھ بھیجی کہ ’’نماز کو تو مار دیا گیاتھا، اسے زندہ کرو۔‘‘[2] علامہ ذ ہبی نے ان سب اصلاحی فرامین کو ’’دریا بہ کو زہ بند‘‘ کے بمصداق اس ایک جملہ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے: ’’سلیمان نے متعدد امور جلیلہ کو نافذ کیا جو وہ عمر سے سنتا تھا۔‘‘[3] سیّدنا عمر رحمہ اللہ کا سلیمان کے اپنے باپ کے خط کو حکم بنانے پر انکار کرنا: سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سلیمان بن عبدالملک کے ساتھ اپنے والد عبدالعزیز بن مروان بن حکم کی ان بعض بیٹیوں کی میراث کے بارے میں بات کی جو بنی عبدالملک سے تھیں ۔تو سلیمان نے کہا: ’’ اس بابت (میرے والد) عبدالملک نے ایک تحریر چھوڑی ہے جس میں انہوں نے ان کو میراث میں سے حصہ دینے سے انکار کیا ہے۔ آپ نے چند دن تک یہ معاملہ مؤخررکھا۔ چند دن بعد پھر سلیمان کو یاد دہانی کرائی کہ آپ کی سوتیلی بہنوں کی میراث کا کیا ہوا۔ تب سلیمان یہ سمجھا کہ شاید عمر یہ سمجھ رہا ہے ہ میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں اوریہ بات اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ۔ حالانکہ اس بابت واقعی اس کے والد نے ایک تحریر چھوڑی تھی چنانچہ سلیمان نے غلام کو وہ خط لانے کا حکم دیا۔ اس پر سیّدنا عمر بولے’’اے امیر المومنین! آپ نے قرآن کو حکم کیوں نہ بنایا؟‘‘ اس پر ایوب بن سلیمان بولا ’’عنقریب تم میں سے ایک ایسی بات کرے گا جس بنا پر اس کی گردن مار دی جائے گی۔‘‘ سیّدنا عمر نے اسے کہا: ’’ جب امر تیرے ہاتھوں میں آئے گا تو جو نقصان مسلمانوں کو پہنچے گا وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو تم ذکر کر رہے ہو۔‘‘ سلیمان نے اپنے بیٹے ایوب کو ڈانٹا۔ اس پر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا: ’’اگر تویہ نادان ہے توہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔‘‘[4] بے شک سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ لائق بصد تعریف بے حد جرأت مندانہ موقف تھا کہ خلیفہ سلیمان اپنے والد کی تحریر کو ایک غیر متبدل وغیر متغیر حکم سمجھ رہا تھا۔ جس پر آپ نے اسے متنبہ کیا کہ یہ مقام تو کتا ب اللہ کا ہے۔ یوں یہ سرکشی اپنی بھینٹ چڑھنے والوں کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ اپنے ان آباء واجداد کی شان کو جو اپنی اولادوں کو ایک ناپائیدار اور روبہ زوال اقتدار دے کر ا س دنیا سے چلے گئے تھے،ا س
[1] اثر العلماء علی الحیاۃ السیاسیۃ، ص:۱۶۹ [2] تاریخ دمشق نقلا عن اثرالعلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص: ۱۷۰ [3] سیر اعلام النبلاء: ۵/۱۲۵ [4] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ص: ۳۱ از ابن عبدالحکم