کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 60
شعبوں میں نظر آنے لگے۔ چنانچہ سلیمان نے خلافت سنبھالتے ہی آپ کو اپنے قریب کیا اور آپ کو وسیع اختیارات سے نوازا اور کہا ’’اے ابوحفص ! آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہمیں خلیفہ بنا دیاگیا ہے۔ ہمیں اس کی مطلق خبر نہ تھی۔ پس آپ جو بات بھی عامۃ الناس کے لیے قرین مصلحت دیکھیں اس کا حکم دے دیجئے۔[1]سلیمان نے آپ کو اپنا وزیر اور مشیر بنالیا۔ سفر وحضر میں آپ کو اپنے ساتھ رکھتا۔ سلیمان ہر چھوٹے بڑے امر میں خود کو آپ کی رائے اور مشاورت کا محتاج سمجھتا تھا۔ سلیمان کہا کرتا تھا یہ آدمی میرے سے جدا کیا ہوتا ہے کہ کوئی بھی میری بات سمجھ نہیں پاتا۔[2]ایک موقع پر کہنے لگا:’’اے ابو حفص ! میں جب بھی کسی مسئلہ میں پریشان ہوتا ہوں تو میرے دل میں آپ کا خیال آجا تا ہے۔[3] (جس سے میر اغم ہلکا ہوجاتا ہے کہ آپ ضرور مجھے اس مسئلہ کا کوئی بہتر حل بتلا دیں گے)
سلیمان کے سیّدنا عمر رحمہ اللہ کو قریب کرنے کے اسباب :
سلیمان نے آپ کو اپنے قریب کیوں کیا ورآپ کو اتنی گنجائش کیوں دی؟ میری نظر میں اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں :
الف: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سلیمان اپنے بھائی ولید کی طرح خود پسند اور مغرور، اپنی رائے پر چلنے والا اور دوسرے ولاۃ وامراء سے متاثر نہ تھا۔ بلکہ سلیمان دوسروں کی رائے کا بھی احترام کرتا تھا جبکہ وہ کسی دوسرے والی کے قول فعل سے مطلق متاثر نہ تھا۔
ب: سلیمان صرف سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی آراء ونظر یات پر ہی اکتفاء کرتا تھا۔
ج: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سلیمان کو خلافت پر متمکن کرنے کے لیے جو کوششیں کی تھیں ، سلیمان انہیں بنظر تحسین دیکھتا تھا اور وہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بے حد ممنون اور شکر گزار رہتا تھا۔ ذہبی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ وہ سلیمان کے خلیفہ بنائے جانے کے واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس لیے سلیمان سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا بے حد شکر گزار رہتا تھا۔ اور اس احسان کا بدلہ اس نے یہ دیا کہ اپنے بعد انہیں خلیفہ بنا گیا۔[4]
اصلاحی پروگراموں میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے سلیمان کا متاثر ہونا:
بعض اصلاحی قرار دادوں کے منظور کرنے میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلیمان پر بے حد اثر تھا۔۔ جن میں بعض اہم اصلاحی فیصلے یہ ہیں :
[1] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص: ۱۶۸
[2] المعرفۃ والتاریخ للغسوی: ۱/۵۹۸
[3] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص: ۲۸ از ابن عبدالحکم
[4] سیر اعلام النبلاء: ۵/۱۴۹