کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 58
خارجی ولید کے پاس بھیج دیا اور ساتھ ہی ایک خط بھی روانہ کیا جس میں لکھا کہ میں اپنے دین کی خوب حفاظت کرنے والا ہوں اور جس چیز کی نگرانی آپ نے میرے ذمے کی ہے میں اس کی خوب رعایت کرنے والا ہوں ، اور میں کسی بے گناہ کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگنے میں بے حد محتاط ہوں ۔ میں آپ کے پاس ایک ایسا آدمی بھیج رہا ہوں کہ جس جیسوں کو میں قتل کرتا رہا ہوں ۔ اب اس کا معاملہ آپ جا نئے (اور دیکھ لیجئے کہ کیا میں ٹھیک کیا کرتا تھا۔)
وہ خارجی ولید کے دربار میں داخل ہوا۔ دربار میں شام کے اشراف بھی بیٹھے تھے جن میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی تھے۔ پھر ولید اورا س خارجی میں یہ گفتگو ہوئی:
ولید: میرے بارے میں کیا جانتے ہو؟
خارجی: ظالم وجابر
ولید: اور عبدالملک؟
خارجی : سرکش جابر
ولید: سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تیری رائے کیاہے؟
خارجی: ظالم (معاذاللہ)
تب ولید نے ابن ریان کو حکم دیا اور اس خارجی کا سر قلم کر دیا گیا پھر ولید اٹھ کر اندر چلاگیا اور لوگ متفرق ہوگئے تب ولید نے غلام کو حکم دیا کہ عمر کو بلا لائے۔ جب عمر آئے تو ولید نے پوچھا’’اے ابو حفص! اس بابت تیری کیا رائے ہے؟ ہم نے غلط کیا یا ٹھیک ؟ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بولے۔ آپ نے ا س خارجی کو قتل کر کے ٹھیک نہیں کیا۔ جبکہ دوسری بات اس سے زیادہ صحیح اور درست تھی۔ وہ یہ کہ آپ اسے قید میں ڈال دیتے یہاں تک کہ اللہ اسے توبہ کی توفیق دے دیتا یا اس کا وقت اجل آجاتا۔
ولید بولا: اس نے مجھے گالی دی میرے باپ کو کوسا۔ وہ حروری تھا۔ توکیا تم ان سب باتوں کو جائز سمجھتے ہو؟ عمربولے: میر ی عمر کی قسم! میں ان باتوں کو حلال نہیں سمجھتا لیکن اگر آپ چاہتے تواسے قید میں ڈال سکتے تھے یا معاف بھی کرسکتے تھے۔ اس پرولید غصہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ ولید کے جانے کے بعد ابن ریان نے آپ سے کہا: اللہ تجھے معاف کرے اے ابو حفص! تم خلیفہ کو ترکی بہ ترکی جواب دے رہے تھے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ ابھی خلیفہ مجھے تیری گردن مار دینے کا حکم دے گا۔[1]
یوں حجاج نے ولید کو متشوش اور مبتلائے حیرت کر دیا تاکہ وہ حجاج اور اس جیسے سفاکوں کو بے مہابا خون بہانے سے روکنے کے لیے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے رائے اختیار نہ کرے۔[2]
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص:۱۱۹۔۱۲۱
[2] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ،ص: ۱۶۴