کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 57
’’ اے امیرالمومنین ! میں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں ، پس جب آپ دل و دماغ کے ساتھ فارغ ہوجائیں اور آپ کی فہم بھی جمع ہو تو مجھ سے اس کے بارے میں پوچھ لیجئے گا۔ ولید بولا’’بھلا اس وقت وہ نصیحت کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ’’عمر بولے (اس کی وجہ) آپ جا نتے ہیں اس لیے جب آپ میری بات پوری توجہ سے سننے کے لیے تیار ہوجائیں گے تو خوب سمجھیں گے۔ چنددن بعد خلیفہ کے دروازے پر لوگوں کا ایک مجمع اکٹھا ہوگیا۔ خلیفہ نے خادم سے پوچھا کہ دروازے پر کون لوگ ہیں ؟ بتلایا گیا کہ کچھ لوگ ہیں جن میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی ہیں ۔ خلیفہ نے آپ کو اندر بلوایا آپ اندر آئے تو خلیفہ بولا: ابو حفص! یاد رہے تم نے مجھے ایک نصیحت کرنے کا وعدہ کیا تھا آج میں اسے پوری توجہ سے سننے کو تیار ہوں ‘‘ اس پر آپ نے یہ کہا: ا للہ کے نزدیک شرک بعد کسی بے گناہ کی جان لینے سے بڑا کوئی جرم نہیں ۔ یہ آپ کے عمال ہیں جو پہلے لوگوں کوقتل کرتے ہیں پھر یہ اعلامیہ جاری کرتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، آپ سے اس بابت ضرور پرسش ہوگی اور آپ اس قتل ناحق میں ماخوذ ہوں گے۔ ان والیوں کو حکم لکھ بھیجے کہ جب تک کسی کے خلاف جرم شہادتوں سے ثابت نہ ہوجائے اورآپ کے نزدیک بھی یہ معاملہ واضح نہ ہوجائے اورپھر آپ حکم بھی نہ دے لیں کوئی والی کسی کو قتل نہ کرے۔
یہ سن کر ولید بولا: ’’اے ابو حفص! اللہ تمہیں برکت دے اور تیرے جیسے لوگ کبھی ناپید نہ ہوں ۔ میرے پاس پروانہ لائو۔‘‘ پھر ولید نے بلاد وامصار کے سب والیوں کو یہی حکم لکھ بھیجا۔ یہ حکم سب نے بلاتر ددمان لیا سوائے حجاج کے کہ وہ اپنی روش پر باقی رہا اور اس نے سفاکی اور خون ریزی کا خون آشام اور بربریت پسند فطرت پر خلیفہ کایہ حکم بے حد گراں گزرا تھا۔ اوردراصل اسے یہ غلطی ہوگئی کہ شاید یہ حکم خلیفہ نے صرف مجھے میری بے رحمی اور سنگدلی کودیکھتے ہوئے لکھا ہے۔ چنانچہ اس نے قاصد سے اس بارے میں تحقیق کی کہ خلیفہ کو یہ مشورہ کس نے دیا ہے؟ قاصد نے جواب دیا: عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے۔ حجاج بولا: ’’پرے ہٹ! اگرتویہ حکم عمر کی رائے سے جاری ہوا ہے تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
پھر حجاج نے بکر بن وائل کا ایک کٹڑ حروری خارجی بلوا بھیجا اوراس سے پوچھا: ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘ اس پر اس خارجی نے جناب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر زبان طعن دراز کرنا شروع کردی۔ پھرحجاج نے اس خارجی سے پوچھا کہ: یزید کے با رے میں کیا کہتے ہو؟ اس پر وہ سب وشتم کرنے لگا۔ جب حجاج نے عبدالملک کے بارے میں پوچھا تو خارجی نے اسے ظالم کہا اور جب حجاج نے اس سے ولید کے بارے میں پوچھا تو خارجی بولا: و ہ جانتا بھی تھا کہ تم کس قدر ظالم اور دشمن ہو پھربھی تم کو لوگوں پروالی بنا دیا۔ بھلا اس سے بڑھ کر اس کے ظالم ہو نے کی دلیل اور کیا ہوگی۔ حجاج یہ ساری گفتگو سن کر خاموش رہا اور آئندہ کے لیے خونریزی کا بازار گرم کرنے کے لیے اس خارجی کا اس کے ہاتھ خوب بہانہ آگیا۔چنانچہ حجاج نے یہ