کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 56
میں آیا ہوا ہے۔ گویا کہ مزاحم نے بدفال لی۔ مزاحم کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے یہ بات ذکر کرنا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ میں نے یہ بات یوں کہی جناب ذرا دیکھیے تو آج کی رات چاند کسی قدر سیدھا ہے۔اس پر آپ نے نگاہ اٹھا کر چاند کی طرف دیکھا تواسے ’’دبران‘‘ میں پایا۔ آپ کہنے لگے: گویا کہ تم مجھے یہ بتلانا چاہتے ہو کہ آج کی رات چاند ’’دبران‘‘ میں ہے۔ اے مزاحم ! ہم نہ تو سورج کی وجہ سے نکالے گئے ہیں او رنہ چاند کی وجہ سے ہم تو اللہ واحد قہار کی وجہ سے نکالے گئے ہیں ۔[1] آپ چلتے ہوئے سویدا ء پہنچے۔ وہاں آپ کا ایک گھراور ایک کھیتی تھی۔ آپ وہاں فروکش ہوگئے۔ اور بعد کے حالات کا رخ دیکھنے لگے کہ کس کروٹ بیٹھے ہیں ۔ پھر آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی مصلحت اس میں ہے کہ آپ خلیفہ کے پڑوس میں دمشق جا رہیں ، شاید یوں آپ مظالم کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں یا حق گوئی کا فریضہ سرانجام دے سکیں ۔ چنانچہ آپ نے چل کر دمشق میں اقامت اختیار کرلی۔[2]
آپ ولید کے پوری طرح ہم نوانہ تھے بلکہ آپ کو متعدد امور میں ولید کے ساتھ اختلاف تھا۔ اسی لیے خلیفہ ولید کے پڑوس میں دمشق میں رہنا مشکلات سے خالی نہ تھا۔ ولید اپنی خلافت کا استحکام اسی بات میں پنہاں دیکھتا تھا کہ نہایت سنگدل اور سخت گیر امراء کو لوگوں پر مقرر رکھا جائے جو تلوار کے زور پر لوگوں کی گردنیں جھکائے رکھیں ۔ چاہے اس کے لیے انہیں مظالم کے پہاڑ ہی کیوں نہ توڑنے پڑیں ۔ جبکہ سیّدنا عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی رائے اور سیاست یہ تھی کہ حکومت عدل سے قائم ہوتی ہے۔ جبکہ رعایا بادشاہ اور سلطان کے امر کی اطاعت بھی کرے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ’’اللہ کی قسم! شام میں ولید، عراق میں حجاج، یمن میں حجاج کے بھائی محمد بن یوسف، حجاز میں عثمان بن حیان اور مصر میں قرہ بن شریک نے رب کی دھرتی کو ظلم وجور سے بھردیا ہے۔[3]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ولید بن عبدالملک کو اس بات کی نصیحت کرنا کہ وہ قتل کے باب میں اپنے عمال کے اختیارات کو محدود کرے:
آپ نے اس سفاکانہ رویے کی اصلاح کے لیے کئی طریقے اپنائے۔ جیسے آپ نے ولید کو اس بات کی وصیت کی کہ وہ لوگوں کو قتل کرنے کے باب میں اپنے عمال کے اختیارات محدود کرے۔ چنانچہ اپنی ابتدائی کوششوں میں آپ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ایک قرار داد جاری کی گئی کہ جب تک خلیفہ کے علم میں نہیں آجاتا اور اس کی موافقت بھی حاصل نہیں ہوجاتی، کسی بھی والی کو کسی کو قتل کرنے کا اختیار نہیں ۔ ابن عبدالحکم نے اپنی تالیف میں ذکر کیا ہے کہ سیّدناعمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس گئے اور کہا:
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لا بن عبدالحکم، ص: ۲۷
[2] البدایۃ والنھایۃ:۱۲/۶۸۳
[3] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۱۴۶