کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 54
کردی جائے) [1]
آپ کے آزاد کردہ غلام مزاحم کی نصیحت :
ایک دفعہ آپ نے مدینہ میں ایک شخص کو قید میں ڈال دیا، لیکن آپ نے اس کو مقررہ مدت سے زیادہ تک قید میں ڈالے رکھا۔ جس پر مزاحم نے آپ سے بات کی کہ اس شخص کو آزاد کر دیجئے۔ آپ نے مزاحم سے کہا: ’’ میں اس کو چھوڑنے والا نہیں یہاں تک کہ جتنی مدت یہ قید میں پڑارہا ہے اس سے زیادہ مد ت نہ گزر جائے۔‘‘ اس پر مزاحم نے غصہ سے کہا: ’’ اے عمر بن عبدالعزیز! میں تمہیں اس رات سے ڈراتا ہوں جس کی کوکھ سے قیامت نکلے گی اور جس کی صبح کو قیامت قائم ہوگی۔ اے عمر! میں یہ بات کہ : ’’امیر نے کہا، امیر نے کہا‘‘ اتنی سنوں گا کہ آپ کا نام تک بھول جائوں گا۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اس بات پر مجھے سب سے پہلے مزاحم نے متنبہ کیا۔ خدا کی قسم!پھر وہی ہوا جو اس نے کہا تھا۔گویا کہ میرے چہرے پر سے پردہ ہٹا دیا گیا۔‘‘[2]
یہ قصہ ہمیں ایسے نیک اور مخلص ساتھی کی ضرورت واہمیت کو بتلاتا ہے جو غفلت کے وقت خدا یاد دلائے۔
خلافت ولید کے عہد میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا حجاج کے ساتھ معاملہ:
ابن جوزی کے بقول آپ نے مدینہ کی امارت سے استعفاء دے دیا تھا، لیکن بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کومعزول کیاگیا تھا۔ چنانچہ ۹۲ھ میں ولید نے حجاج کو حج کا امیر بنا کر روانہ کیا۔ یہ خبر سنتے ہی آپ نے ولید کو خط لکھا اوراس بات کی معذرت کی کہ حجاج مدینہ منورہ سے نہ گزرے۔ کیونکہ آپ حجاج کو بے حد ناپسند کرتے تھے۔ اورا سکے مظالم کی بنا پر اسے دیکھنا تک گوار نہ کرتے تھے۔ ولید نے آپ کی خواہش کے احترام میں حجاج کو خط لکھ بھیجا کہ ’’عمر نے تمہارے مدینہ سے گزرنے کی معذرت لکھ بھیجی ہے۔ کیا حرج ہے کہ اگر تم اس آدمی کے پاس سے نہ گزرو جو تمھیں پسند نہیں کرتا۔ اس لیے تم حج کو جاتے ہوئے مدینہ کے رستے سے ہٹ کر گزرنا۔ ‘‘[3]
آپ نے مدینہ کی امارت کے دوران ولید کے ان تمام مظالم کی تفصیل لکھ بھیجی تھی جو حجاج نے اہل عراق پر ڈھائے تھے۔ اور بتلایا کہ اہل عراق حجاج کے ظلم وستم جبرواستبداد وحشت وبربریت اور سفا کی سے کس قدر تنگ ہیں ۔ان باتوں کی بنا پر حجاج آپ سے بے حد خارکھاتا تھا۔ اور اس نے اپنے دل میں آپ کے خلاف کینہ اور انتقام پال رکھا تھا۔چنانچہ وہ ہر وقت آپ سے بدلہ کی ٹوہ میں رہنے لگا۔ اور اس وقت اس کا جوش انتقام اور بھی زیادہ ہوگیا جب اس کے مظالم سے تنگ آجانے والے بھاگ بھاگ کر حجاز میں پناہ لینے لگے
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ص: ۴۲
[2] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز بن الجوزی،ص:۱۴۰
[3] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز ومناقبہ،ص:۲۴ از ابن حکم