کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 53
ہی کیا اور خبیب کو سوکوڑے مروائے، پھر ایک گھڑے میں پانی ٹھنڈا کر کے ایک ٹھنڈی صبح اس پرانڈیلا جس سے خبیب کو جوڑوں کی اینٹھن نکل آئی۔ بالآخر یہی دردیں ان کی موت کا باعث بن گئیں ۔ آپ نے خبیب کو اس وقت قید سے نکال دیا جب اس کی بیماری شدت پکڑ چکی تھی۔ آپ کو اپنے کیے پر بے حد ندامت ہوئی اور آپ خبیب کی موت سے بے حد مغموم ہوئے۔
مصعب بن عبداللہ نے مصعب بن عثمان سے روایت کیا ہے کہ لوگ خبیب کو ’’بقیع زبیر‘‘ میں واقع دار عمربن مصعب بن زبیر لے گئے اور ان کے وفات پاجانے تک ان کے گرد جمع رہے۔ یہ لوگ بیٹھے تھے کہ ماجشون آگئے۔ انہوں نے داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس وقت خبیب کی لاش پر چادر ڈال دی گئی تھی۔ ماجشون سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مدینہ کی امارت کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عروہ نے کہا ’’انہیں آنے دو‘‘ ماجشون اندر داخل ہوئے اور کہا‘‘ لگتا ہے کہ تمھیں اپنے ساتھی کی موت میں شک ہے ذرا اس کا منہ توکھولو۔‘‘ لوگوں نے ان کا منہ کھولا۔ ماجشون انہیں ایک نظر دیکھ کر لوٹ گئے۔ ماجشون کہتے ہیں کہ میں نے سیدھا جاکر دارِ مروان کے دروازے کو کھٹکھٹایا۔ اندر داخل ہوا تو عمر کو دردِ زہ میں مبتلا عورت کی طرح بے چینی سے کبھی اٹھتے اور کبھی بیٹھتے دیکھا۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے پوچھا: پیچھے کیا ہوا؟میں نے کہا: وہ مرگیا۔ یہ سنتے ہی مارے خوف کے عمر زمین پر گرگئے۔ پھر انا للہ پڑھتے ہوئے سراوپر اٹھایا۔ پھر موت تک ان پر غم و اندوہ کی یہ کیفیت طاری رہی۔
اس واقعہ کے بعد آپ نے مدینہ کی ولایت سے استعفاء دے دیا اورپھر ولایت کو قبول نہ کیا۔ جب بھی آپ کو یہ کہا جاتا کہ آپ نے فلاں فلاں نیکی کی ہے، اس کی بشارت لیجئے تو آپ فوراً کہتے کہ’’خبیب کا کیا بنے گا۔‘‘[1]غرض خبیب کی موت کا یہ واقعہ مرتے دم تک آپ کو یاد رہا۔ اور گویا کہ آنکھوں سامنے رہا۔[2]
اس کے علاوہ اور بھی متعدد واقعات ہیں جو بتلاتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ولایت سنبھالتے وقت آپ میں صلاح اور تقویٰ کے واضح آثار نمایاں ہوچکے تھے۔چنانچہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابو عمر بیان کرتے ہیں کہ میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی اس مجلس میں حاضر ہوا جس میں وہ نماز فجر ادا کیا کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی گود میں قرآن کریم کا نسخہ ہے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں جو داڑھی کو ترکررہے تھے۔[3]
ابن ابی زناد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جب والی مدینہ تھے اور کوئی چیز خرچ کرنا چاہتے تو کہتے کہ کسی ضرورت مندگھرانے کو تلاش کرو۔’’(تاکہ یہ چیزان پر خرچ
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لا بن الجوزی، ص: ۴۳۔۴۴
[2] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ص: ۴۲
[3] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ص: ۴۲