کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 51
اختیارات کو د وباتوں میں محدود کیا:
الف: ارکان شوریٰ رائے پیش کرنے کی بابت اہل حق ہیں ۔ ہربات ان کے رائے سے کی جائے گی۔ اس بنا پر بعض دفعہ امیر بھی اس مجلس کے اختیارات کے حق میں دست بردار ہوجائے گا۔ اس مجلس کا نام ’’مجلس عشرہ‘‘ تھا۔
ب: آپ نے انہیں عمال پر مفتش (تحقیقی افسر) مقرر کیا تھا۔ جوان کے معاملات کے نگران تھے۔ چنانچہ آپ نے یہ طے کیا کہ جب بھی کسی عامل کی ستم کیشی ان میں سے کسی کے بھی علم میں آئے گی وہ اس کی اطلاع امیر کو ضرور دے گا، وگرنہ امیر ’’کا تم حق‘‘(حق چھپانے والے) کے خلاف اللہ سے مدد مانگے گا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا عمر رحمہ اللہ کی یہ تدبیر بھی دوامور کو متضمن ہے:
(۱) آپ نے ’’مجلس عشرہ‘‘ کے کسی رکن کے لیے کوئی معاوضہ مقرر نہ کیا تھا، کیونکہ یہ لوگ ’’اصحاب عطا‘‘ تھے، دوسرے یہ لوگ فقہاء تھے اس لیے آپ ان کے کسی اختصاص میں دخل نہ دینا چاہتے تھے
(۲) اگر کسی عذر کی بنا پر کوئی حاضر نہ ہوسکتا تھا تو آپ نے اسے اس بات کی رخصت دی تھی۔ اسی لیے آپ نے کسی مسئلہ کے طے کرنے کے لیے ان سب کی حاضری کو لازم نہ قرار دیا تھا۔ اس لیے آپ نے مجلس کے قیام کے وقت ان کے سامنے یہ بات بھی رکھی تھی کہ یا تو میں سب کی موجودگی میں فیصلہ کروں گا یا جو حاضر ہوگا اس کی موجودگی میں فیصلہ کروں گا۔ [1]
اس مجلس میں بلا استثناء سب امور کے بارے میں مشورہ کیا جاتا تھا۔[2] اس قصہ سے ہم علماء ربانی کی اہمیت اور ان کے بلند مرتبے کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اور یہ کہ والیان امور کے ذمہ ہے کہ وہ علمائے ربانی سے مشاورت کیا کریں ۔ انہیں اپنے قریب کیا کریں ۔ جیساکہ خود ان علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نیکوکار والیوں کے قریب ہو کر ممکن حد تک ان مصالحہ عامہ کو حاصل کریں جن سے عوام ورعایا کی دنیا وآخرت کا بھلا ہواور حتی الامکان مفاسد کا سدباب یاان کی تقلیل کریں ۔
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نظام شوریٰ کو فقط ان فقہاء تک ہی محدود نہ رکھا ہوا تھا بلکہ آپ ان کے علاوہ دوسرے علماء مدینہ سے بھی مستقل مشاورت رکھتے تھے۔ جن میں سعیدبن مسیب اور زہری وغیرہ حضرات کے نام سر فہرست ہیں چنانچہ آپ ہر فیصلہ میں سعید بن مسیب کی رائے ضرور لیتے تھے۔آپ نے مدینہ منورہ کے مقام ومرتبہ کو بلند کیا۔ اس کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے کسی مسئلہ کو
[1] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الاسلامی: ۱/۵۶۱۔ ۵۶۲
[2] نظام الحکم فی الاسلام بین النظر یۃ والتطبیق، ص: ۳۹۱