کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 50
مدینہ کی ولایت
۸۷ھ میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے آپ کو مدینہ منورہ کا والی بنادیا۔ جبکہ ۹۱ھ میں طائف کی امارت و ولایت بھی آپ کے سپرد کردی جس سے آپ سارے حجاز کے والی بن گئے۔ آپ نے امارت قبول کرتے وقت تین باتوں کی شرط لگائی تھی جویہ ہیں :
پہلی شرط: …وہ لوگوں میں عدل سے کام لیں گے کسی پر ظلم نہ کریں گے بیت المال سے وابستہ کسی کے حق کو غصب نہ کریں گے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ منورہ سے خلیفہ کے لیے جانے والا مال کم پڑگیا۔
دوسری شرط: …مجھے پہلے سال ہی حج کی اجازت ہوگی۔ کیونکہ آپ نے ابھی تک حج نہ کیا تھا۔
تیسری شرط:… مجھے اہل مدینہ پر خرچ کرنے کی اجازات ہوگی۔
ولید نے یہ تینوں شرطیں مان لیں ۔ تب آپ نے مدینہ کی ولایت قبول کی جس سے اہل مدینہ کی خوشی کی انتہانہ رہی۔[1]
آپ کی مجلس شوریٰ اور مدینہ کے فقہائے عشرہ
آپ کا سب سے بڑا کا رنامہ یہ تھاکہ آپ نے مدینہ منورہ میں ایک مجلس شوریٰ قائم کی۔ جب لوگ مدینہ منورہ کے نئے امیر کی خدمت میں سلام پیش کر نے کی غرض سے حاضر ہوئے تو آپ نے مدینہ کے دس فقہاء کو طلب کیا جن کے نام یہ ہیں :
عروہ بن زبیر، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابوبکر بن سلیمان بن ابی خیثمہ، سلیمان بن یسار، قاسم بن محمد، سالم بن عبداللہ بن عمر، سالم کے بھائی عبداللہ بن عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ اور خارجہ بن زیدبن ثابت۔
یہ لوگ تشریف لائے، بیٹھے آپ نے گفتگو کا آغاز رب تعالیٰ کی حمد وثنا سے کیا،پھر فرمایا: ’’میں نے آپ حضرات کو ایک ایسی بات کے لیے بلوایا ہے جس پر آپ کو اجر ملے گا۔ جس میں آپ حق کے معاون بنیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں کوئی بھی فیصلہ آپ لوگوں کی رائے یا جو تم لوگوں میں سے حاضر ہو اس کی رائے کے بغیر نہ کروں ۔ لہٰذا اگر تم کسی کو حد سے تجاوز کرتے دیکھو یا آپ کو میرے کسی عامل کی ستم کیشی کی اطلاع ملے تو میں اس شخص کو اللہ سے ڈراتا ہوں کہ اسے یہ بات پہنچے تومجھ تک بھی ضرور پہنچائے۔‘‘ [2]
آپ جانتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی پیش آمدہ بات پر مجلس منعقد کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر پیش آمدہ مسئلہ میں شوریٰ کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی تو آخر آپ کے پوتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بھی مجلس شوریٰ قائم کی اور آپ نے ارکان شوریٰ کے
[1] فقہ عمر بن عبدالعزیز: ۱/۶۳
[2] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۵۴۸ از قلعجی