کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 47
یہ ہیں وہ اہم اسباب وعوامل جنہوں نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی شخصیت کی تکوین وتشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اور ہمیں ان عوامل کے تناظر میں یہ عبرت آمیز سبق ملتا ہے کہ علمائے ربانی کے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری ہے اور وہ ہے حکام و امراء اور اصحاب جاہ ومال کی اولادوں کی تعلیم وتربیت کی طرف بھرپور توجہ دینا کیونکہ ان کی اصلاح میں امت اسلامیہ کی عظیم خیر پنہاں ہے۔ ۳… علمی مقام ومرتبہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سوانح نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے اما م تھے حتی کہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ دونوں نے آپ کو امام کے لفظ سے پکاراہے ۔[1] مجاہد فرماتے ہیں : ہم آئے تو انہیں تعلیم دینے تھے مگر تھوڑا عرصہ بھی نہ گزرا کہ خود ان کے سامنے زانوئے تلمذطے کرنے لگے۔[2] میمون بن مہران کہتے ہیں :عمر علماء کے تربیت یافتہ تھے۔ [3] امام ذہبی رحمہ اللہ کاقول ہے: ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ امام فقیہ مجتہد، سنن کے عارف، بڑی شان والے، حافظ، اللہ سے ڈرنے والے، گریہ و زاری کرنے والے اور رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ حسن سیرت اور قیام عدل میں انہیں اپنے نانا امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ، جبکہ زہد میں حسن بصری اور علم میں زہری رحمہ اللہ کے ساتھ شمار کیا جاتا تھا۔[4] علماء اور فقہاء ان کے قول وفعل سے استدلال کیا کرتے تھے۔ انہی میں سے وہ مشہور زمانہ خط ہے جو امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا۔ جس میں وہ جابجا اپنے بعض مسائل میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز کے قول سے استدلال کر کے اما م مالک رحمہ اللہ پر اپنے قول کی صحت کو حجت بناتے ہیں ۔[5] حتی کہ مذاہب اربعہ کی کتب فقہیہ میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ذکر ان کے مذہب سے استدلال کے طورپر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ متعدد مسائل میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایسا ہی کیا ہے۔ حتی کہ حضرات فقہاء نے جناب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ایسا لقب ذکر کیا ہے جس سے وہ اپنے نانا امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے جدا نظر آتے ہیں ، چنانچہ قرشی ’’الجواہر المضیئۃ‘‘ میں کہتے ہیں : فائدہ:… ہمارے اصحاب مسائل اختلافیہ میں اپنی کتب میں کہتے ہیں : یہ عمرصغیر کا قول ہے۔ اوراس
[1] الآثار الواردۃ عن عمر بن عبدالعزیز: ۱/۶۷ [2] تہذیب التہذیب: ۷/۴۰۵ [3] تاریخ ابو زرعۃ ، ص: ۲۲۵ [4] تذکرۃ الحفاظ،ص: ۱۱۸۔ ۱۱۹ [5] الآثار الواردۃ عن عمر بن عبدالعزیز فی العقیدۃ: ۱/۷۰