کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 468
عمرہ کرنے والے! آپ نے ایک عظیم ذمہ داری اٹھائی اور اس کا حق ادا کیا۔ اے عمر! آپ نے اس میں اللہ کے امر کو قائم کیا۔ آج سورج گرہن میں ہے، روشن نہیں۔ اور رات کے تارے اور چاند آپ پر رو رہے ہیں۔‘‘[1]
ج: محارب بن دثار کہتے ہیں:
’’اگر کسی پر عدل کی وجہ سے موت نہ آتی ہوتی تو اے عمر! تم پر نہ آتی۔ آپ نے کتنے عادلانہ فیصلے کیے جو فنا کے گھاٹ اتر گئے تھے، آپ نے ان کو زندہ کیا اور لوگ ایک کے بعد دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہائے میرے دل کا غم اور میرے ساتھ دوسروں کا غم۔ اس قبر پر جس میں آپ جا اترے ہیں۔ اور آپ جیسے کئی آدمیوں کو قبریں اپنے اندر لے گئیں۔ آپ نے بے حد کوشش کی، لوگوں کو دین پر چلایا۔ اس میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ اور جن سنتوں کی انہیں ضرورت تھی ان کو زندہ کیا۔ اگر یہ بات آپ کے بس میں ہوتی تو آپ ان لوگوں کے پاس مرنے کے بعد بھی صبح وشام آتے۔‘‘[2]
اللہ تعالیٰ امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ پر رحم فرمائے۔ نیکوکاروں میں ان کے ذکر کو بلند کرے۔ یہ آپ کی پاکیزہ سیرت اور آپ کی تجدیدی اور اصلاحی کاوشوں کا ایک ادنیٰ ذکر ہے، جن میں آپ نے نبوت کے منہج پر چل کر امت کی اصلاح کی کوشش کی۔ اللہ اس سیرت کے تذکرے کو ہمارے لیے محفوظ رکھے۔ راتیں اس تذکرہ کو ضائع نہ کر دیں۔ زمانے کے حوادث اس سیرت کے تذکرے کو ہم سے جدا نہ کر دیں اور نہ صدیوں کا زمانہ اس کو مٹا پائے۔ شاید آگے چل کر کوئی مومن مجاہد اٹھے۔ شاید کوئی حاکم وقت، عالم، قائد یا لیڈر اٹھے اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی پاکیزہ سیرت کو مشعل راہ بنا کر چلے۔ اور یہ بات اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں چاہے وہ ہماری ہی نسلوں سے ہو یا کبھی آئندہ چل کر اس کا ظہور ہو۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۱۲/ ۷۱۹۔
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۱۲/ ۷۱۹۔