کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 467
اللہ کے ساتھ ایک ہوگا، اور اس وقت اور بھی زیادہ ایک ہوتا ہوگا جب وہ خلوت میں اپنے رب کی عبادت کرتے ہوں گے، مجھے اس راہب کی عبادت پر (جو ساتھ کھڑا تھا) تعجب نہیں جس نے دنیا چھوڑ کر کنیسہ میں ڈیرہ ڈال لیا۔ لیکن مجھے حیرت اس پر ہے دنیا چل کر جس کے قدموں تلے آئی مگر اس نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہاں تک کہ ان راہبوں جیسا ہوگیا، بے شک نیکوکار شریروں کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں رہتے۔‘‘[1] ۱۲۔ موت کے وقت کی منسوب کرامات: حسین قصار سے جو ضعیف راوی ہے مروی ہے وہ کہتا ہے کہ ’’میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت میں بکریوں کا دودھ دوہتا تھا۔ ایک دن میں ایک چرواہے کے پاس سے گزرا جس کی بکریوں میں اس وقت تقریباً بھیڑیے بھی تھے جن کو میں کتے سمجھا۔ میں نے پوچھا: ’’او چرواہے! اتنے کتوں کا کیا کرتے ہو؟ بولا: لڑکے! یہ کتے نہیں بھیڑیے ہیں، میں نے کہا: سبحان اللہ! بھیڑیے بھیڑوں میں ہونے کے باوجود انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے۔[2] اس قسم کے قصے مبالغہ سے خالی نہیں، سوائے دور رسالت کے، جبکہ ہم نے خلفائے راشدین کے دور میں بھی ایسے کسی قصے کا تذکرہ نہیں سنا کہ بھیڑیے اور بکریاں اکٹھی چرتی ہوں۔ آپ کی وفات کے بعد لوگوں کو خواب میں آپ کے بارے میں اچھی بشارتیں ملیں۔ ہر خاص وعام نے عابد وزاہد اور علماء نے بالخصوص آپ کے مرنے کا بے حد غم کیا۔[3] ۱۳۔ مرثیے: الف: کثیر بن عزہ کہتا ہے: ’’ان کی نیکیاں بھی عام تھیں، ان کے مرنے کا افسوس بھی سب کو ہوا، ان کی بابت سب کو اجر ملے گا۔ سب نے آپ پر ماتم کیا ہر گھر سے گریہ کی آوازیں آئیں۔ جن کو آپ نے والی نہیں بنایا تھا وہ بھی آپ کا ذکر خیر کر رہے ہیں کیونکہ آپ خیر کے ذکر کے اہل ہیں۔ آپ کی نیکیاں آپ کی زندگی کا نوحہ کر رہی ہیں، اور آپ کے مرنے سے وہ بھی ختم ہو گئیں گویا کہ ان کے پھیلنے سے آپ بھی دنیا میں پھیل گئے تھے۔‘‘[4] ب: جریر کہتا ہے: ’’موت کی خبر دینے والوں نے ہمیں امیرالمؤمنین کے مرنے کی خبر دی، اے سب سے بہتر حج اور
[1] مروج الذہب: ۳/ ۱۹۵۔ [2] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۲/ ۶۷۰۔ [3] البدایۃ والنہایۃ: ۱۲/ ۷۱۸۔ [4] البدایۃ والنہایۃ: ۱۲/ ۷۱۸۔