کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 466
ھ:… یزید بن حوشب کا قول ہے: ’’میں نے حسن بصری اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے زیادہ رب سے ڈرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔[1]یہ لوگ اللہ سے یوں ڈرتے تھے جیسے جہنم انہی دونوں کے لیے بنی ہے۔‘‘[2] و:… اوزاعی بیان کرتے ہیں: ’’میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے جنازہ میں تھا، جنازہ کے بعد میں قنسرین کے ارادہ سے نکلا، راستے میں ایک راہب کے پاس سے گزرا تو وہ بولا: میرا گمان ہے کہ تم ان صاحب کا جنازہ پڑھ کر آرہے ہو۔ میں نے کہا، ہاں! اس پر وہ نظریں جھکا کر یوں رویا جیسے بادل برستا ہے۔ میں نے کہا: تم کیوں رو رہے ہو وہ تو تمہارے دین پر نہ تھے۔ وہ راہب بولا: ’’میں ان پر نہیں بلکہ اس نور پر رو رہا ہوں جو ان کے جانے کے بعد زمین پر سے بجھ گیا ہے۔‘‘[3] ز:… قیصر روم اور پادری: آپ نے کسی معاملہ میں ملک روم کے پاس گفتگو کے لیے ایک وفد بھیجا اور اسے حق کی دعوت دی، جب وفد وہاں پہنچا تو وہ تخت پر بیٹھا تھا۔ سامنے ترجمان تھا۔ سر پر تاج دائیں بائیں حشم وخدم اور پادریوں کی قطاریں تھیں۔ لوگ حسب مراتب بیٹھے تھے۔ وفد کی یادداشت اس تک پہنچائی گئی۔ قیصر نے حسن سلوک کیا اور اچھا جواب دیا۔ وفد اس دن لوٹ گیا، اگلے سے اگلے دن اس کا قاصد بلانے آیا۔ وفد مہمان خانے سے اس کے پاس گیا دیکھا تو وہ زمین پر بیٹھا ہے۔ اور تاج بھی سر سے اتارا ہوا ہے۔ اور آج وہ منظر بھی نہ تھا جو پہلے دیکھا تھا۔ دربار پر افسردگی چھائی تھی۔ لگتا تھا جیسے کوئی مصیبت آئی ہو۔ قیصر بولا: ’’جانتے ہو میں نے تم لوگوں کو کیوں بلوایا ہے۔‘‘ وفد بولا: ’’نہیں۔‘‘ قیصر کہنے لگا: ’’میرے عرب سرحد پر واقع دوست کا ابھی خط آیا ہے کہ عربوں کا نیک آدمی انتقال کر گیا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی فرط غم سے وفد رونے لگا۔ اس پر قیصر بولا: ’’کیا تم اپنے لیے یا اپنے دین کے لیے یا اس کے لیے رو رہے ہو؟‘‘ وفد بولا: ’’تینوں باتیں ہی ہیں۔‘‘ اس پر قیصر بولا: اس کے لیے رونے کی ضرورت نہیں۔ رونا ہے تو جتنا چاہے اپنے لیے روؤ، وہ یہاں سے زیادہ خیر کی طرف چلے گئے ہیں۔ وہ رب کی اطاعت چھوڑنے سے ڈرتے تھے تو اللہ ان پر دنیا کا اور اپنا خوف جمع نہ کرے گا۔ مجھے ان کی نیکی اور علم وفضل کے وہ احوال پہنچے ہیں کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی مردے زندہ کر سکتا ہوتا تو میرا گمان ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تھے۔ مجھے ان کے ظاہر و باطن کی جو خبر ملی ہے میرا گمان ہے کہ ان کا ظاہر و باطن
[1] تاریخ الخلفاء للسیوطی: ۱/ ۵۳۔ [2] صفۃ الصفوۃ: ۳/ ۱۵۶۔ [3] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۳۱۔