کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 465
مرے جن کا ترکہ سترہ دینار تھا۔ پانچ دینار تکفین میں لگ گئے، دو دینار میں قبر کی جگہ خریدی۔ باقی تقسیم ہوگیا۔ ہر بیٹے کو ۹ درہم ملے۔‘‘ اور جب ہشام بن عبداملک مرا تو اس کے بھی گیارہ بیٹے تھے۔ اس کے ترکے کی تقسیم کے بعد ہر بیٹے کو دس دس لاکھ ملا۔ اب میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ایک بیٹا دیکھا جو اللہ کی راہ میں ایک دن میں سو گھوڑوں پر سامان لاد کر صدقہ کر رہا تھا۔ جبکہ میں نے ہشام کا ایک بیٹا دیکھا جسے لوگ صدقہ دے رہے تھے۔‘‘[1]بہرحال اگرچہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو والد کے ترکہ سے بے شمار مال ملا تھا پر وفات کے وقت سب ختم تھا۔ رضی اللہ عنہ۔[2] ۱۱۔ کلمات خیر: الف:… جب آپ کا انتقال ہوا اور مسلمہ بن عبدالملک نے آپ کو کفن میں ڈھکا دیکھا۔ تو کہا: ’’اللہ تم پر رحم کرے کہ تم نے سخت دلوں کو نرما دیا اور نیکوں میں ہمارا ذکر خیر چھوڑا۔‘‘[3] ب:… وہیب بن ورد سے روایت ہے کہ جب ہمیں آپ کی وفات کی خبر پہنچی تو فقہاء آپ کی اہلیہ کے پاس تعزیت کے لیے پہنچے اور بولے: ’’ہم عمر کی تعزیت کرنے آئے ہیں، آج امت مصیبت میں ہے، ہمیں عمر کے بارے میں کچھ بتلائیے اللہ آپ پر رحم کرے، وہ گھر میں کیسے رہتے تھے کہ گھر والے سب سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ تو بولیں: ’’اللہ کی قسم! وہ تم لوگوں سے زیادہ نماز روزہ کا اہتمام نہ کرتے تھے لیکن میں نے عمر سے زیادہ رب سے ڈرنے والا بندہ نہیں دیکھا، اللہ کی قسم! وہ میرے ساتھ ایک لحاف میں لیٹے دل لگی کر رہے ہوتے تھے کہ اچانک دل پر کوئی بات گزرتی تو یوں تڑپ اٹھتے جیسے پرندہ پانی میں گر کر تڑپتا ہے۔ پھر اتنا روتے کہ میں سمجھتی کہ ابھی ان کا دم نکل جائے گا۔ تو میں ان پر ترس کھاتے ہوئے لحاف ہٹا دیتی۔ اور کہتی: کاش! اس امارت اور ہمارے درمیان مشرق مغرب کا فاصلہ ہوتا، اللہ کی قسم! جب سے ہم امارت میں داخل ہوئے کبھی ہنس کے نہ دئیے۔‘‘[4] ج:… حسن بصری رحمہ اللہ کو جب آپ کے انتقال کی خبر پہنچی تو فرمانے لگے، ’’اے ہر خیر والے! انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔[5] د:… مکحول کہتے ہیں میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے زیادہ زاہد اور رب سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۳۸۔ [2] فقہ عمر: ۱/ ۵۶۔ [3] سیرۃ عمر، لابن الجوزی: ص ۳۲۹۔ [4] ملامح الانقلاب: ص ۵۶۔ [5] فقہ عمر: ۱/ ۵۳۔