کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 464
دیکھ رہے ہیں (کیا دیکھ رہے ہیں)‘‘ تو فرمایا: ’’چند لوگ آئے ہیں جو نہ انسان ہیں اور نہ جن۔‘‘ پھر آپ کی روح پرواز کر گئی۔[1] آپ کی انگوٹھی پر یہ الفاظ کندہ تھے: ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا اللہ پر ایمان ہے۔‘‘ ۹۔ تاریخ وفات: آپ نے بروز جمعہ پس رجب المرجب ۱۰۱ہجری میں وفات پائی۔ یہی روایت سب سے صحیح ہے۔ آپ نے بیس روز علالت میں گزارے اور دَیر سمعان ارض معمرہ شام میں انتقال فرمایا۔ آپ نے دو سال پانچ ماہ اور چودہ دن خلافت کی۔ انتقال کے وقت اس خلیفہ زاہد مصلحِ کبیر، عالمِ ربانی کی عمر انتالیس سال اور پانچ ماہ تھی۔ جبکہ اصح روایت کے مطابق عمر چالیس برس تھی۔[2] ۱۰۔ ترکہ: آپ کے ترکہ کی مقدار میں روایات کا اختلاف ہے، البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ ترکہ بے حد معمولی اور نہ ہونے کے برابر تھا۔[3] چنانچہ عمر بن حفص معیطی سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: ’’ہمیں عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بیان کیا عمر فرماتے ہیں کہ ’’میں نے عبدالعزیز سے پوچھا: ’’والد صاحب (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ) آپ لوگوں کے لیے کتنا ترکہ چھوڑ گئے تھے‘‘ تو تبسم فرما کر بولے: ’’ہمیں ہمارے خادم نے بیان کیا جو آپ کے نان ونفقہ کا ذمہ دار تھا کہ آپ نے عالم نزع میں انہیں بلا کر پوچھا: ’’تیرے پاس کتنا مال ہے؟ بولا: ’’چودہ دینار۔‘‘ فرمایا: ’’تم لوگ اس کو ایک گھر سے دوسرے گھر اٹھاتے پھرو گے۔‘‘ پھر میں نے عبدالعزیز سے پوچھا: ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ آپ لوگوں کے لیے کتنا عطیہ چھوڑ گئے تھے؟‘‘ تو فرمایا: ’’چھ سو دینار جو ہمیں عبدالملک کے اختیار سے ورثے میں ملے تھے۔ آپ نے پس ماندگان میں بارہ بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑیں تھیں تو ہم نے ان چھ سو دیناروں کو پندرہ حصے بنا کر باہم تقسیم کر لیا۔‘‘[4] صحیح یہ ہے کہ وفات کے وقت گیارہ بیٹے تھے۔ چونکہ عبدالملک نے آپ کی زندگی میں وفات پائی تھی۔[5] ابن جوزی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ منصور نے عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’مجھے کوئی نصیحت کیجئے‘‘، تو بولے: ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ گیارہ بیٹے چھوڑ
[1] الکتاب الجامع: ۲/ ۶۵۴۔ [2] تاریخ القضاعی: ص ۳۶۳۔ [3] فقہ عمر: ۱/ ۵۰۔ [4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۳۷۔ [5] فقہ عمر: ۱/ ۵۵۔