کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 463
مسلمانوں کے پاس جا کر میرے لیے استغفار کرنے کو کہنا۔‘‘ رجاء کہتے ہیں: ’’ہم نے ایسا ہی کیا، چنانچہ قبر بند کرنے کے بعد جب ہم نے سر کی طرف سے ایک اینٹ کھول کر دیکھی تو آپ کا منہ قبلہ کی طرف دیکھا، اس پر ہم نے اللہ کی حمدثناء بیان کی۔‘‘[1] ۷۔ آپ کو موت کی آسانی پسند نہ تھی: کیونکہ آپ فرماتے تھے : ’’موت درجات بلند ہونے کا یہ آخری موقعہ ہوتا ہے۔‘‘[2]اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’کیونکہ مومن کے گناہوں کے معاف ہونے کا یہ آخری موقعہ ہوتا ہے۔‘‘[3] ۸۔ جان کنی: جب آپ پر عالم نزع طاری ہوا تو فرمایا: ’’سب چلے جاؤ کوئی میرے پاس نہ رہے۔‘‘ سب چلے گئے مگر مسلمہ اور آپ کی اہلیہ جو مسلمہ کی بہن تھی دروازہ پر بیٹھے رہے۔ انہوں نے آپ کی یہ آواز سنی: ’’اے آنے والو! تمہیں خوش آمدید۔ یہ چہرے تو نہ انسانوں کے ہیں اور نہ جنوں کے۔‘‘[4] ایک روایت میں فاطمہ یہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایام مرض میں آپ کو یہ کہتے سنا: ’’اے اللہ! میری موت کا حال ان سے مخفی رکھنا چاہے دن میں آئے‘‘، پھر جس دن آپ کا انتقال ہوا میں آپ کے پاس سے اٹھ کر ساتھ کے کمرے میں چلی گئی اور دروازے کے پاس بیٹھ گئی، تو میں نے آپ کو یہ کہتے سنا: {تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo} (القصص: ۸۳) ’’یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔‘‘ پھر آپ کا بدن پر سکون ہوگیا۔ اب نہ کوئی آواز تھی نہ آہٹ اور نہ کوئی کلام۔ تو میں نے آپ کے خادم سے کہا: ’’ذرا اندر جا کر امیرالمومنین کو تو دیکھ آؤ۔‘‘ وہ اندر گیا تو اس نے چیخ مار دی۔ تب میں نے اندر جا کر آپ کا منہ قبلہ کی طرف موڑا اور آپ کے ایک ہاتھ سے داہنی اور دوسرے ہاتھ سے بائیں آنکھ بند کر دی۔ آپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’آپ نے اپنے مرض الوفات میں فرمایا: ’’مجھے بٹھا دو۔‘‘ لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا پھر فرمایا: ’’اے اللہ! میں وہی ہوں جس کو تو نے حکم دیا پس اس نے نافرمانی کی تقصیر وکوتاہی کی۔ لیکن تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ پھر سر اٹھایا اور تیز نظروں سے دیکھا۔ لوگوں نے کہا: ’’آپ بڑی تیز نظروں سے
[1] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۲/ ۶۴۴۔ ۶۴۵۔ [2] الکتاب الجامع: ۲/ ۶۴۸۔ [3] ایضًا [4] الکتاب الجامع: ۲/ ۶۵۳۔