کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 462
بے شک پہلوں کی زندگی اور ان کی خبریں درس وعبرت سے لبریز ہیں۔ امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو ہی دیکھ لیجئے مرتے ہوئے بھی حتیٰ کہ موت کے بعد اپنی اولاد کے لیے وصیت میں بھی تقویٰ کا درس دے گئے ہیں، کہ آپ نے اس حال میں دنیا چھوڑنا بھی پسند نہ کیا کہ سر پر ایک ایسی شے کی ذمہ داری ہو جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا کرنا کیا ہے۔
آپ سوچتے تھے کہ میں اولاد کو کسی ایسے کے ذمہ نہ کر جاؤں جو انہیں حرام کھلائے اور اس کا گناہ ان کے سر ہو۔ اس لیے آپ نے اولاد کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔
آپ نے اولاد کو مسلمانوں کا مال دے کر خود جہنم میں جلنا پسند نہ کیا لہٰذا ان پر تھوڑا لیکن حلال خرچ کرنا بہتر سمجھا جو شبہات سے خالی ہوتا کہ اس کی برکت سے جنت کے جان فزا جھونکوں میں جا بسیں۔ چنانچہ آپ نے رب کے بھروسے پر کہ وہ انہیں ضائع نہ کرے گا۔ یہ دوسری صورت پسند کی۔
آپ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ میری اولاد کی نیک نامی مشہور ہے۔ لوگوں کے دل میں ان کا زبردست احترام ہے۔ حتیٰ کہ ذمی بھی ان کے بارے میں دلوں میں عزت اور نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ آپ نے انہیں بتلایا کہ یہ ہے وہ زبردست ترکہ جو میں ان کے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوں جو انمول ہے، جس کی قیمت یہ دنیا کے اہل نظر نہیں لگا سکتے۔
پھر فرمایا کہ میری اولاد یا تو نیک ہوگی یا بد۔ نیک ہوگی تو اللہ انہیں غنی کر دے گا اور اگر بد ہوگی تو میں ان کے لیے مال چھوڑ کر ان کی برائیوں میں شریک نہ ہوں گا۔
آپ نے سمجھا یا کہ نیکوں کا دوست اور ولی ’’اللہ‘‘ ہے۔ اور یہ کہ باپ کو اولاد کی تربیت کرنے میں اور اس کو نیک بنانے میں ازحد کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ خود اللہ ان کا محافظ ونگہبان بنے۔ اور یہ کہ اولاد کے لیے مال چھوڑ جانا کوئی اتنی ضروری بات نہیں۔ کہ اگر اولاد نیک نہ ہوئی تو یہ مال برائیوں میں اڑائے گی۔ اور یہ ان کی گناہ میں معاونت ہوگی۔[1]
اور مسلمہ کو مرتے مرتے بھی یہ سمجھا گئے کہ مال کے ذریعہ آمدن کو غور سے دیکھو اور یہ کہ حرام مال صدقہ کرنے سے یا کسی کو ہدیہ کر دینے سے حلال نہیں ہو جاتا، لہٰذا اگر مال کسی کا حق ہو تو اسے لوٹا دے۔[2]
۶۔ غسل وتکفین کی وصیت:
رافع بن حفص مدنی سے روایت ہے کہ آپ نے رجاء کو یہ وصیت فرمائی: ’’جب تم لوگ میرے غسل، تکفین اور نماز سے فارغ ہو جاؤ اور مجھے قبر میں اتار دو تو میرے سر کی طرف سے ایک سوراخ کھول کر دیکھنا کہ اگر تو میرا منہ قبلہ کی طرف ہے تو اس پر رب تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرنا، اور اگر میرا منہ قبلہ سے پھرا دیکھو تو
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۶/ ۲۲۲۔
[2] التاریخ الاسلامی: ۱۶/ ۲۲۲۔