کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 461
۵۔ موت کے وقت اولاد کو وصیت:
مرض الوفات میں مسلمہ بن عبدالملک آپ سے ملنے آیا اور بولا: ’’اے امیرالمومنین! آپ اپنی اولاد کو تنگدست چھوڑے جا رہے ہیں، اگر ان کو میرے یا میرے جیسوں کے حوالے کر جائیں تو وہ ان کا خرچ اٹھائے گا‘‘، آپ نے مسلمہ کی بات سن کر فرمایا: ’’ذرا مجھے بٹھانا‘‘، لوگوں نے بٹھا دیا تو فرمایا: ’’اے مسلمہ! میں نے تیری بات سنی، تیرا یہ کہنا کہ میں نے انہیں اس مال سے محروم رکھا، تو سنو! میں نے ان کا حق مارا نہیں اور کسی کا حق انہیں دیا نہیں۔ رہ گیا تمہارا ان کے بارے میں وصیت کرنے کو کہنا تو ان کے بارے میں میری وصیت یہ ہے:
{اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَo} (الاعراف ۱۹۶)
’’بے شک میرا یارو مدد گار اللہ ہے، جس نے یہ کتاب (برحق) نازل کی ہے اور وہی نیکوں کا یارو مدد گار بنتا ہے۔‘‘
میری اولاد یا تو نیک ہوگی تو انہیں اللہ مستغنی کر دے گا اور اگر یہ غیر صالح ہوئی تو رب کی نافرمانی میں مال دے کر ان کی مدد کرنے والا سب سے پہلا شخص میں نہ بنوں گا۔
پھر آپ نے اپنے بچوں کو بلوایا۔ ان کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور بولے: ’’میں انہیں تنگدست چھوڑے جا رہا ہوں، ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘ یہ فرما کر رو پڑے۔ پھر فرمایا: ’’ میرے بچو! میں تمہارے لیے خیر کثیر چھوڑے جا رہا ہوں، تم جس مسلمان یا ذمی کے پاس سے بھی گزرو گے وہ تمہارے لیے حق کو دیکھیں گے۔ اے میرے بچو! میرے سامنے دو ہی رستے تھے یا تو تمہیں مال دے کر خود جہنم میں چلا جاتا یا تم قیامت تک تنگدست رہتے اور میں جنت میں چلا جاتا۔ میں نے تمہارے فقر کو پسند کیا۔ اب اٹھ جاؤ۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے اور تمہیں رزق دے۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے مسلمہ کو وصیت کی کہ وہ آپ کی موت کے وقت آئے آپ کو غسل دے۔ کفن پہنائے اور قبر تک ساتھ جائے۔ اور قبر میں اتارنے والوں میں بھی ہو۔ پھر فرمایا: ’’اے مسلمہ! اس وقت دیکھنا کہ تم مجھے کس منزل پر چھوڑ جاؤ گے اور دیکھنا کہ دنیا نے مجھے کس حال کے حوالے کر دیا۔‘‘
مسلمہ یہ وصیت سن کر بولے: ’’یہ سو دینار ہیں ان کا جو چاہے کیجئے!‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اے مسلمہ! ایک بات اس سے بھی بہتر ہے، وہ یہ کہ ان کو جہاں سے لیا ہے، وہیں چھوڑ آؤ۔‘‘ مسلمہ بولے: اے امیر! اللہ تمہیں جزائے خیر دے، تو نے سخت دلوں کو نرما دیا اور ہمارا نیکوں میں ذکر کیا۔[2]
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۱۵۔ ۱۱۶۔
[2] ایضًا : ص ۱۲۲۔ ۱۲۳۔