کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 460
سے برکت لوں گا۔ میری زمین میں آپ کی قبر ہونا خیر ہے۔ میں نے وہ جگہ آپ کو ہبہ کر دی۔‘‘ لیکن آپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ’’یا تو جگہ بیچ دو وگرنہ میں کہیں اور جگہ لے لیتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ نے دو یا چھ یا تیس دیناروں میں وہ جگہ خرید لی اور وہ رقم مالک کے ہاتھ پر رکھ دی۔ وہ بولے ’’اگر ہمیں یہ ڈر نہ ہوتا کہ آپ کہیں اور جگہ لے لیں گے تو ہم یہ رقم کبھی نہ لیتے۔‘‘[1] ۴۔ یزید بن عبدالملک ولی عہد کو وصیت: آپ نے مرض الوفات میں اپنے ولی عہد یزید کے لیے یہ وصیت لکھوائی: ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم! اللہ کے بندے عمر۔ امیرالمومنین کی طرف سے یزید بن عبدالملک کے نام۔ السلام علیک! میں تیرے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ امابعد! میں موت کے منہ میں جاتے ہوئے تیرے لیے یہ وصیت لکھوا رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ میں جس کو ولی بنا جاؤں گا، اس کی پوچھ گچھ مجھ سے ہوگی۔ اور دنیا وآخرت کا بادشاہ مجھ سے اس کا حساب لے گا۔ اور میں اس سے اپنا کوئی عمل چھپا نہیں سکتا۔‘‘ ارشاد ہے: {فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْہِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَo} (الاعراف: ۷) ’’پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔‘‘ اگر رب رحیم مجھ سے راضی ہوگیا تو میں طویل غم سے نجات پا گیا اور کامیاب ہوگیا۔ اور اگر وہ ناراض ہوگیا تو ہائے میری ہلاکت جس کی طرف میں جاؤں گا، میں اس اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے جہنم میں جانے سے بچائے۔ اور مجھے اپنی رضوان اور جنت کا انعام کرے۔ تم اللہ کے تقویٰ کو لازم پکڑنا اور رعایا کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ میرے بعد تم بھی دنیا میں زیادہ نہ ٹھہرو گے اور رب لطیف وخبیر سے آملو گے۔‘‘[2] ایک روایت میں ہے: ’’سلیمان بن عبدالملک اللہ کا ایک بندہ تھا، اللہ نے اس کی روح قبض کر لی، اس نے مجھے اپنا خلیفہ بنا دیا اور مجھ سے اور میرے بعدیزید بن عبدالملک کے لیے بیعت لی۔ اگر میں بیویاں اور مال جمع کرنا چاہتا تو دنیا میں سب سے بہتر یہ چیزیں جمع کر لیتا۔ لیکن مجھے سخت حساب اور باریک سوال کا ڈر ہے، ہاں اللہ ہی مدد کرے تو کرے۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ و برکاتہ!‘‘ آپ نے اپنے ولی عہد کو نہایت بلیغ وصیت کی اور طرح طرح کی مثالیں دے کر اس کو آخرت سے ڈرایا اور حساب کا خوف دلایا۔[3]
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۲۲۔ ۳۲۳۔ [2] ایضًا: ص ۳۱۸۔ ۳۱۹۔ [3] فقہ عمر: ۱/ ۴۷۔