کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 46
امام مالک رحمہ اللہ حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’سالم کے زمانہ میں سالم سے بڑھ کر کوئی بھی اسلاف صلحاء کے زہد وفضل اور طرز حیات کے مشابہ نہ تھا۔ سالم دو درہموں کا لباس پہنتے تھے اور کھجوروں کی تھیلی خرید کر خود اٹھاتے تھے۔‘‘[1]
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ جب سلیمان بن عبدالملک نے سالم کا رنگ روپ اور حسن وجمال دیکھا توان سے پوچھا، کیا کھاتے ہو؟ (جو ایسی عمدہ صحت اور ایسا دلفریب رنگ روپ ہے)؟ سالم بولے: بس روٹی اور تیل۔ البتہ گوشت ملے تو وہ بھی کھالیتا ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا آپ کو گوشت کی اشتہا ہوتی ہے۔؟ توبولے جب مجھے گوشت کی اشتہا نہیں ہوتی تو میں اسے چھوڑ دیتا ہوں یہاں تک کہ اسکی اشتہا ہونے لگتی ہے۔ ‘‘[2]
ایک دن سالم موٹے جھوٹے لباس میں سلیمان بن عبدالملک کے دربار میں چلے گئے تواس نے بے حد احترام کیا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی مجلس میں بیٹھے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں پیچھے بیٹھے لوگوں میں سے ایک بولا کیا تمہارے ماموں … مراد حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں … اس سے عمدہ لباس نہ پہن سکتے تھے جس کو زیب تن کر کے خلیفہ کے پاس آتے؟ یہ بات کہنے والے نے نہایت قیمتی لباس پہنا ہواتھا۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان صاحب کو جواب دیتے ہوئے کہا، میں نہیں دیکھ رہا کہ ان کے معمولی لباس نے ان کا مرتبہ تم سے گھٹا دیا ہو ا ور تمہارے قیمتی لباس نے تیرا مرتبہ ان سے بڑھا دیا ہو۔‘‘[3]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایسے ہی علماء صلحاء مشائخ اور فقہاء سے تربیت حاصل کرتے رہے حتی کہ آپ کے مشائخ کی تعداد تینتیس بتلائی جاتی ہے جن میں آٹھ صحابہ اور پچیس تابعین ہیں ۔[4] آپ ان کے علوم سے سیراب ہوئے ان کے آداب واخلاق اپنائے ان کی مجالس کے کھونٹے بن گئے۔ یہاں تک کہ آپ کے اخلاق وعادات میں ان حضرات کی مضبوط ومستحکم تربیت کے نیک آثار ظاہر ہونے لگے۔[5]
چنانچہ مضبوط شخصیت، سنجیدگی ومتانت، معاملات کے حل، حزم واحتیاط، دقت نظر، غورو فکر، قرآن کریم میں تدبر، قوی ارادہ اور ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ مخول سے اجتناب کرنے میں اپنے سب معاصرین پر سبقت لے گئے۔[6]
[1] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۶۰
[2] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۶۰۔
[3] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۶۱
[4] مسند امیر المؤمنین عمر، ص: ۳۳
[5] الجوانب التربویۃ فی حیا ۃ عمر بن عبدالعزیز: ۱/۶۷
[6] عمربن عبدالعزیز،ص: ۳۰ از زحیلی