کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 459
خادم خاص کو استعمال کیا۔ اور اس سے ایک ہزار دینار دینے کا وعدہ کیا، اور آزادی دینے کا بھی لالچ دیا۔ غلام جب بھی یہ کرنے لگتا اس کا دل تڑپ اٹھتا۔ بالآخر انہوں نے غلام کو قتل کی دھمکی دے کر یہ کام کروا لیا۔ چنانچہ وہ لالچ اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنے ناخنوں پر زہر مل کر گیا اور پینے کی چیز میں وہ زہر گھول دیا۔ جیسے ہی آپ نے گھونٹ بھرا آپ کو زہر آلودہ ہونے کا احساس ہوگیا۔[1]
مجاہد کی روایت گزر چکی ہے کہ آپ کے پوچھنے پر وہ بولے کہ ’’لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید آپ پر جادو ہوا ہے لیکن آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ مجھے زہر پلایا گیا ہے۔ پھر غلام کو بلا کر اس بابت پوچھا تو وہ مان گیا کہ میں نے یہ کام ہزار دینار اور آزادی کے لالچ میں کیا ہے، آپ نے اس سے دینار لے کر تو بیت المال میں جمع کروا دئیے اور اسے کہا کہ کہیں جا کر چھپ جاؤ۔‘‘[2]
اکثر روایات نے زہر خورانی کو ہی موت کا سبب قرار دیا ہے۔[3] آپ نے زہر پلانے والے غلام کو معاف فرما دیا وگرنہ چاہتے تو اس سے بدترین انتقام لے سکتے تھے۔ البتہ آپ نے غلام سے زہر دینے والے کا نام نہ پوچھا حالانکہ آپ اس کو نام بتلانے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اور پھر اس سے قصاص بھی لے سکتے تھے۔ بے شک یہ معاف کر دینے کی انوکھی اور نہایت بلند مثال ہے۔ کیونکہ آپ کا یقین تھا کہ جو اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے اور آپ جانتے تھے کہ معاف کر دینے پر رب تعالیٰ اجر دے گا۔ اگرچہ قصاص لینا گناہ نہ تھا لیکن پھر آپ معاف کر دینے کے اجر سے محروم ہو جاتے۔ چنانچہ آپ نے رب کے ہاں ملنے والے ثواب کو جان سے بھی زیادہ قیمتی جانا۔[4]
۳۔ قبر کی جگہ خریدنا:
یہ آپ کی عاجزی کی انتہا تھی کہ جب آپ کو بتلایا گیا کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں چوتھی قبر کی جگہ موجود ہے اور لوگوں نے مدینہ چل دینے کا بھی مشورہ دیا، تو آپ نے یہ دعا کی کہ ’’اے رب! جہنم کا عذاب نہ دینا کہ میں اس کو جھیل نہیں سکتا۔ یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ تو میرے دل میں یہ خیال دیکھے کہ میں اس کا اہل ہوں۔‘‘[5]
آپ نے حکم دیا کہ ایک جگہ میری قبر کے لیے میرے خاص مال سے خریدی جائے۔ یہ آپ کے ورع اور شدید محاسبۂ نفس کا نتیجہ تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے مرض الوفات میں اپنے اردگرد کے لوگوں سے فرمایا: ’’میری قبر کی جگہ راہب سے خریدنا۔‘‘ نصرانی بولا: ’’اے امیرالمومنین! اللہ کی قسم! میں آپ کے پڑوس
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۱۶۔ ۳۱۷۔
[2] تذکرۃ الحفاظ: ۱/ ۱۲۰۔
[3] فقہ عمر: ۱/ ۴۴۔
[4] التاریخ الاسلامی: ۱۶/ ۲۲۹۔
[5] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۲۱۔ ۳۲۴۔