کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 458
زندگی کے آخری ایام اور وفات ۱۔ آخری خطبہ: آپ نے اپنا آخری خطبہ خناصرہ میں دیا جو یہ ہے: ’’اے لوگو! نہ تو تم بیکار پیدا کیے گئے ہو اور نہ یوں ہی چھوڑ دئیے جاؤ گے، تمہارے لیے معاد ہے، جس میں رب تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلے کرے گا۔ پس جو رب کی وسیع رحمت سے نکل گیا اور اس کی زمین وآسمان سے بڑی جنت سے محروم ہوگیا۔ اصلی خسارے میں وہ ہے جان لو کہ کل قیامت میں امان اس کو ملے گی جس نے آج رب سے ڈر کے دکھایا اور ختم ہونے والی شے یعنی دنیا کو باقی رہنے والی شئے یعنی آخرت کے بدلے میں بیچ ڈالا۔ اور کم کو زیادہ کے بدلے خوف کو امن کے بدلے بیچ دیا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم ہلاک ہو جانے والوں کی اولادیں ہو۔ اور تمہارے بعد بھی اور قومیں آئیں گی، حتیٰ کہ سب سے اچھے وارث کے پاس پہنچ جاؤ گے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے طویل خطبہ دیا اور بے تحاشا روپڑے اور لوگوں کو بھی رلایا پھر منبر سے اتر آئے، یہ آپ کا آخری خطبہ تھا۔ اس کے بعد آپ وفات پا گئے۔[1]اس خطبہ کا تفصیلی ذکر گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔ ۲۔ زہر خورانی کا واقعہ: آپ کے سبب وفات میں روایات میں اختلاف ہے، بعض لوگوں نے خوف الٰہی کی شدت اور لوگوں کے امور کے اہتمام کی کثرت کو آپ کی وفات کا سبب بیان کیا ہے۔ یہ روایت آپ کی زوجہ اور ابن سعد کی طبقات میں ابن لہیعہ کی روایت سے مذکور ہے۔[2] جبکہ بعض نے بنو امیہ کے زہر خورانی کو آپ کی وفات کا سبب قرار دیا ہے، کیونکہ وہ دنیا پرست اور عیاش لوگ آپ کی سیاست سے بے حد تنگدل رہتے تھے۔ ظلم کے عادی ان لوگوں کا عدل کی فضاء میں دم گھٹتا تھا۔ ان کی عدیم النظیر شاہ خرچیاں ختم کر دی گئی تھیں۔ آپ نے ان سے مظلوموں سے چھینی ہوئی تمام دولت واپس لے لی تھی۔ اس لیے انہوں نے آپ کو زہر پلوا دیا۔[3]اور ایسے لوگوں سے یہ کوئی بعید یا مستبعد نہیں کہ انہوں نے آپ سے جان چھڑانے کے لیے یہ گھناؤنا فعل کر ڈالا ہو۔ چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کے
[1] تاریخ الطبری: ۷/ ۴۷۵۔ [2] فقہ عمر: ۱/ ۴۳۔ [3] فقہ عمر: ۱/ ۴۳۔