کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 457
تابعداری کرنا۔ اس کے بعد رب تعالیٰ حق پر ثابت قدم رکھیں گے۔ دین میں اضطراب واقع نہ ہوگا، اور وہ ہدایت ملے گی جو ہر قسم کی کجی سے پاک ہوگی، اور اجر عظیم کی مستحق ٹھہرائے گی۔[1]
بے شک ہدایت اور حق پر ثابت قدمی رب کا وہ انعام ہے جو خوش قسمتوں کو ہی ملتا ہے، جن کے دلوں میں صرف اللہ کی محبت بس جاتی ہے اور ان کے اعضاء اس کے حکم کے تابع ہو جاتے ہیں۔[2]
آپ کی خلافت ان لوگوں کے خلاف حجت ہے جو طوطے کی طرح یہ الفاظ رٹتے رہتے ہیں کہ اسلامی حکومت ہمیشہ آزمائشوں کا شکار رہے گی۔ اور ہر لمحہ روبہ زوال ہوگی، یہ نرا خواب ہے، بے شک سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت ان لوگوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔
{قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo} (البقرۃ: ۱۱۱)
تاریخ کا طالب علم یہ پڑھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ ایک تسلسل ہے۔ چنانچہ شیخ ابو حفص معین الدین عمر بن محمد بن خضر اربلی رحمہ اللہ نے نور الدین زنگی متوفی ۵۶۸ کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مفصل سیرت لکھ کر دی تاکہ نور الدین اس کی پیروی کرے۔ گزشتہ میں اس امر پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ چنانچہ شیخ نے نور الدین زنگی کے لیے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی زندگی سے ایک علمی اور عملی منہج تیار کیا۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ چھٹی صدی ہجری میں خلافت اسلامیہ میں وہی اصلاحات ظہور پذیر ہوئیں اور انہی مقاصد کے پرچم بلند ہوئے جو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اڑھائی سالہ دور خلافت کے امتیازی اوصاف تھے۔
تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ ہر دور میں شریعت قائم کرنے کے ثمرات اور اس کی برکات کا ظہور ہوا۔ اور دنیا نے دیکھا جس کو تاریخ نے رقم کیا، پھر مسلمانوں میں رب تعالیٰ کی غیر متبدل وغیر متغیر سنتوں کا ظہور ہوا۔
آج بھی کوئی اسلامی قیادت شریعت کے نفاذ کے مقصد کو لے کر اٹھے تو وہ بھی اپنے دامن میں انہی برکات کو سمیٹے گی۔ بے شک تاریخ کا مطالعہ عبرت اور عمل کے لیے ہے تاکہ ہمارے سامنے ان لوگوں کے حالات آئیں جنہوں نے ایمان، جہاد، علم، تربیت اور اصلاح وارشاد سے بھر پور زندگیاں گزاریں۔ رب تعالیٰ کی سنن کو لینے کا طریقہ ایک ہی ہے کہ اس کی شریعت کو لاگو کیا جائے۔
[1] فتح القدیر: ۱/ ۴۸۵۔
[2] الحکم والتحاکم: ۲/ ۶۹۰۔