کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 456
بلاد وامصار میں نیکی اور تقویٰ پھیلانے کے لیے آپ نے جن علمائے ربانی کی خدمات لیں اور انہوں نے اقالیم اسلامیہ میں جا بجا تزکیہ اور سلوک کے جو مدرسے کھولے ان کے سرخیل اور سردار جناب حسن بصری تھے۔ ان سب باتوں کا تفصیلی تذکرہ گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ اس قدر مختصر مدت میں لوگوں کے شوق، رجحان، میل اور ذوق سب بدل گئے۔ اور یہ سارا فرق آپ کی وجہ سے تھا۔ چنانچہ گزشتہ حکمران جس طرح کے تھے ان کی عوام بھی ویسی ہی تھی کہیں دولت کے چرچے تو کہیں کنیزوں کے، کہیں ٹھاٹھ باٹھ کے مقابلے تو کہیں عمارتیں بنانے میں ریس۔ لیکن آپ کے دور میں مقابلہ و تنافس تھا تو نمازوں، روزوں، شب بیداریوں اور قرآن کی تلاوتوں کا۔ جیسا کہ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کی تصریح کی ہے اور یہ روایت گزشتہ میں ذکر ہو چکی ہے۔ ۷۔ ہدایت و ثابت قدمی: چونکہ آپ کو اس بات کی شدید حرص تھی کہ آپ شریعت کے احکام کو جاری کریں تو رب تعالیٰ نے بھی آپ کو ہدایت اور حق پر جمنے کی نعمت عظمیٰ سے نوازا۔ ارشاد ہے: {فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo} (النساء: ۶۵) ’’پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔‘‘ آگے ارشاد ہے: {وَ لَوْاَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ مَّا فَعَلُوْہُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْہُمْ وَ لَوْ اَنَّہُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعِظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاo وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰہُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِیْمًاo وَّ لَہَدَیْنٰہُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo}(النساء: ۶۶۔۶۸) ’’اور اگر ہم واقعی ان پر فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو، یا اپنے گھروں سے نکل جائو تو وہ ایسا نہ کرتے مگر ان میں سے تھوڑے اور اگر وہ واقعی اس پر عمل کرتے جو انھیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور زیادہ ثابت قدم رکھنے والا ہوتا۔ اور اس وقت ہم یقینا انھیں اپنے پاس سے بہت بڑا اجر دیتے۔ اور یقینا ہم انھیں سیدھے راستے پر چلاتے۔‘‘ رب تعالیٰ نے خیر کا وعدہ جس امر کی بنا پر کیا ہے وہ ہے شریعت کو حکم بنانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی