کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 455
شریعت قائم کرنا اور اس کے احکام کو نافذ کرنا یہ غیب کے خزانوں سے مادی اور معنوی دونوں برکات کو کھینچتا ہے۔ جن لوگوں نے ایمان پختہ کیا اللہ نے ان کی عزت کی۔ انہیں ان برکات سے نوازا جن کا تقویٰ اور ایمان پر وعدہ کیا تھا۔ اس برکت کی کوئی محدود، متعین اور خاص شکل نہیں۔ یہ ایک فیض ربانی ہے جس کا بے حساب ہر جگہ ظہور ہوتا ہے۔ اس کی صورتوں کا انسان جہاں تک بھی تصور کر سکتا ہے یہ اس پر بھی مستزاد ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ برکت کو حیطۂ خیال میں لانا، اس کو ناپنا اور تولنا ناممکن ہے۔[1] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں لوگوں نے اس برکت کا مادی اور معنوی و حسی مشاہدہ کیا۔ یکدم زندگیوں میں آسودگی آگئی۔ خزانے بھر گئے، سرحدیں مضبوط ہوگئیں، ظلم وجور ختم ہوگیا، انصاف ملنے لگا، فوجیں طاقتور ہوگئیں، نیکی کا راج ہوگیا۔ بدی کو سرچھپانے کو جگہ نہ ملی۔ دولت وثروت کا یہ حال تھا کہ زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔ تجارت، عدالت، اقتصاد، حکومت، قضاء، تعلیم، تربیت غرض ہر شعبہ ترقی کی اَوجِ ثریا تک جا پہنچا۔ تنگدستی کیا ختم ہوئی کہ اغنیاء پریشان ہوگئے۔ کس کو زکوٰۃ دیں کوئی لینے والا نہ ملتا تھا۔ زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک صاحب کہتے ہیں، ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہم پر تیس ماہ تک حکومت کی جب مرے تو اس حال میں مرے کہ ایک آدمی بہت سارا مال لے کر آتا اور کہتا کہ جہاں چاہے خرچ کر دو، دن گزر جاتا پر اس کا مستحق نہ ملتا، کیونکہ آپ نے لوگوں کو خوشحال ہی اتنا کر دیا تھا۔‘‘[2] بے شک یہ ملک میں شریعت نافذ کرنے کی برکات ہیں۔ ۶۔ فضائل کا چرچا اور رذائل کا خاتمہ: اخلاق اور شریعت میں اٹوٹ رشتہ ہے اور کیوں نہ ہو کہ تزکیہ مقاصد نبوت میں سے ہے۔ ارشاد ہے: {لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo} (آل عمران: ۱۶۴) ’’بلاشبہ یقینا اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘ پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں نیکی کرنے کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں تاکہ نفس پاک ہو اور گناہوں کے میل سے صاف ہو جس میں وہ حالت شرک میں مبتلا تھے۔[3]
[1] فی ظلال القرآن: ۳/ ۱۳۳۹۔ [2] رجال الفکر والدعوۃ: ۱/ ۵۸۔ [3] تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۴۰۱۔