کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 454
الْاُمُوْرِo} (الحج: ۴۰۔۴۱)
’’اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، بے شک اللہ یقینا بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔ وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔‘‘
بے شک جو اللہ کے دین، اس کی کتاب اور اس کے رسول کی نصرت کرتے ہیں، اللہ ان کا مددگار ہے اور جو اللہ کے حکم کے بغیر پر عمل کرتے ہیں ان کی کوئی نصرت نہیں۔[1] جیسے آج ہمارا حال ہے۔
۴۔ عزت وشرافت:
کتب تاریخ آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور یہ سارا ثمرہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو مضبوطی سے تھامنے کا تھا جو آپ کی سیرت کا طرۂ امتیاز ہے۔ اور انہی کو عزت ملتی ہے اور انہی کا ذکر بلند ہوتا ہے جو کتاب وسنت کو دستور حیات بنا لیتے ہیں، آپ نے صحیح رستے پر قدم رکھا، صراط مستقیم پر چلے تو رب کی سنت جاریہ سے سرفراز ہوئے۔ ارشاد ہے:
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo} (الانبیاء: ۱۰)
’’بلاشبہ یقینا ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے، جس میں تمھارا ذکر ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘
اس آیت کی تفسیر میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، ’’اس میں تمہارا ذکر ہے یعنی اس میں تمہاری عزت ہے۔‘‘[2]
اس امت کو ایک ہی رستے سے عزت وشرافت ملے گی اور وہ ہے احکام اسلام کو مضبوطی سے تھام لینا۔
۵۔ برکت اور آسودگی:
ارشاد ہے:
{وَ لَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo} (الاعراف: ۹۶)
’’اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور بچ کر چلتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے بہت سی برکتیں کھول دیتے اور لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے انھیں اس کی وجہ سے پکڑ لیا جو وہ کمایا کرتے تھے۔‘‘
[1] صفحات مشرقۃ من التاریخ الاسلامی للصلابی: ۲/ ۳۰۶۔
[2] تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۱۷۰۔