کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 452
’’تو کیا وہ زمین میں چلے پھر ے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جوان سے پہلے تھے، وہ (تعداد میں) ان سے زیادہ تھے اور قوت میں اور زمین میں یادگاروں کے اعتبار سے ان سے بڑھ کر تھے، تو ان کے کسی کام نہ آیا، جو وہ کماتے تھے۔ پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر پھول گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا اور انھیں اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔‘‘ ۵۔ سنن الٰہیہ سے معاندوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا البتہ متقی لوگ ان سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ارشاد ہے: {قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَo ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَo} (آل عمران: ۱۳۷۔۱۳۸) ’’بلاشبہ تم سے پہلے بہت سے طریقے گزر چکے، سو زمین میں چلوپھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ یہ لوگوں کے لیے ایک وضاحت ہے اور بچنے والوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت ہے۔‘‘ ۶۔ یہ سنتیں نیک و بد دونوں پر جاری ہوتی ہیں، پس سنن الٰہیہ مومنوں پر بھی جاری ہوتی ہیں جن میں سب سے بلند حضرات انبیائے کرامh ہیں۔ اللہ کی کچھ ایسی سنتیں بھی ہیں جو اس کی شریعت کی تابعداری یا اس سے اعراض پر مرتب ہونے والے آثار سے متعلق ہیں۔[1] رب تعالیٰ کے حکم پر چلنے کے دنیاوی اور اخروی دونوں آثار ہیں، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت میں اس کے دنیاوی اثرات ظاہر ہوئے، جو یہ ہیں: ۱۔ استخلاف اور تمکین فی الارض: ہم دیکھتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے آپ کو روئے زمین پر زبردست حکومت دی۔ جو اس بات کی حرص کا نتیجہ تھا کہ رب تعالیٰ کی شرع قائم ہو۔ ان کی ذات سے لے کر خلافت کے کونے کونے تک۔ تو رب تعالیٰ نے آپ کے اس مخلصانہ راشدی منصوبہ کو برکت اور نصرت وتائید سے نوازا۔ اور آپ کی حکومت کے قدم مضبوط
[1] الحکم والتحاکم فی خطاب الوحی: ۲/ ۶۶۷۔ ۶۶۹۔